گوادر سے جبری لاپتہ عظیم دوست کی ہمشیرہ کی انسانیت کی بحالی کا مطالبہ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گذشتہ دس سالوں سے ماورائے آئین و قانون جبری لاپتہ عظیم دوست کی ہمشیرہ رخسانہ دوست نے حکومت پاکستان سے انسانیت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائی عظیم دوست بلوچ کو 3 جولائی 2015 کو گوادر سے ماورائے قانون جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد سے وہ تاحال لاپتہ ہیں، گزشتہ 10 سالوں سے ہمارا خاندان شدید ذہنی، جذباتی اور معاشرتی اذیت میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ نے اپنے لختِ جگر کے انتظار میں آنسو بہاتے بہاتے آنکھیں خشک کر لی ہیں۔ ہماری زندگیاں مفلوج ہوچکی ہیں، خوشیاں، خواب اور امیدیں سب ماند پڑ گئی ہیں۔ خوف، بے چینی، ڈپریشن اور اضطراب ہماری روزمرہ کی حقیقت بن چکے ہیں۔

رخسانہ دوست نے جبری گمشدگی بین الاقوامی قانونِ انسانی حقوق کے مطابق انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رو سے یہ ایک ایسی اجتماعی سزا ہے جو صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتی ہے۔ ہم پچھلی ایک دہائی سے اسی اجتماعی سزا کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ انسان کو جبراً لاپتہ کرنا اور اس کے خاندان کو عدمِ یقین اور اذیت میں مبتلا رکھنا نہ انصاف ہے، نہ انسانیت۔ ایسا ظلم کسی مہذب اور قانون پسند معاشرے میں ناقابلِ تصور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ریاست جو خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے نہ اسلام کے اصولِ عدل و رحمت پر قائم دکھائی دیتی ہے، نہ جمہوریت کے تقاضوں پر۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کی بنیاد انسانی تقدس پر رکھی گئی ہے، اور جمہوریت کی اساس انصاف اور عوامی اختیار پر لیکن جبری گمشدگیوں کے تسلسل نے ان دونوں اصولوں کو پامال کر دیا ہے۔

رخسانہ دوست نے کہا کہ آج بھی عظیم دوست بلوچ جیسے بے شمار نوجوان ریاستی حراستی مراکز میں اپنی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کے خاندانوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا قتل کر دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ جو انصاف کی آخری امید سمجھی جاتی ہے بدقسمتی سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ روزانہ جبری گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں مگر کسی جج کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ازخود نوٹس لے کر انسانی حقوق کی اس سنگین پامالی کا سدباب کرے۔ اس کے برعکس وہ ادارے اور افراد جو ان گمشدگیوں میں ملوث ہیں قانونی تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بے بس بہن کی حیثیت سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمیں اس طویل اجتماعی اذیت سے نجات دلائیں اور میرے بھائی عظیم دوست بلوچ سمیت تمام جبری لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کے لیے مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی وقار، انصاف اور قانون کی بالادستی ہی کسی معاشرے کی اصل بنیاد ہے۔ ہم صرف اپنے پیاروں کی واپسی نہیں بلکہ انسانیت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Share This Article