اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’حکومت نے زندہ بچ جانے والے اور ہلاک ہو جانے والے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے فریم ورک کو منظور کر لیا ہے۔‘
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں حکومتی وزرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک نہایت اہم موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ دو برسوں میں ہم نے اپنے جنگی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی ہے اور ان میں سے ایک مرکزی مقصد یرغمالیوں کی واپسی ہے۔ اب ہم اپنے اس ہدف کے حصول کے قریب پہنچ چکے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم سٹیو وٹکوف اور جیرڈ کُشنر کی غیر معمولی مدد پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس نے آج کئی برسوں بعد اسرائیلی میڈیا کو اپنا پہلا انٹرویو دیا۔
انھوں نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں پُرامید ہیں اور پائیدار امن چاہتے ہیں۔
انھوں نے اسرائیل کے چینل 12 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج جو کچھ ہوا وہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ہم امید کرتے رہے ہیں اور اب بھی امید کرتے ہیں کہ ہم اپنی سرزمین پر جاری خونریزی کو ختم کر سکیں، چاہے وہ غزہ کی پٹی میں ہو، مغربی کنارے میں، یا مشرقی یروشلم میں۔‘
فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ ’آج ہم بہت خوش ہیں کہ خونریزی رک گئی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اسی طرح رہے اور ہمارے اور اسرائیل کے درمیان امن، سلامتی اور استحکام قائم رہے۔‘
عباس نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کچھ اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کچھ اصلاحات مکمل ہو چکی ہیں اور دیگر پر کام جاری ہے تاکہ فلسطینی اتھارٹی ایک ایسے نمونے کے طور پر اُبھرے جو فلسطینی عوام کی قیادت جاری رکھنے کے قابل ہو۔‘