بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماءسمی دین بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دالبندین ضلع چاغی میں زبیر بلوچ کے گھر پر حملہ اور اُن کی شہادت کوئی اتفاقی سانحہ نہیں بلکہ اُس ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے جو کئی دہائیوں سے بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے جاری ہے۔
زبیر بلوچ ایک پُرامن سیاسی کارکن، باہمت نوجوان اور انسانی حقوق کے لیے بے خوف آواز تھا۔ وہ ہمیشہ جبری گمشدگیوں، وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ڈٹ کر بولتے رہے۔ زبیر بلوچ کو ہمیشہ سے لگتا تھا تھا کہ بلوچ عوام کے مسائل کا حل اور اُن کے حقوق کا تحفظ صرف پُرامن سیاسی جدوجہد میں ہے۔
مگر ریاست نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ اُسے نہ پُرامن سیاست برداشت ہے اور نہ ہی اختلافِ رائے سے قبول ہے فورسز نے زبیر بلوچ کے گھر پر یلغار کرکے انھیں اور اُن کے ساتھی ناصر بلوچ کو بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ قتل صرف دو انسانی جانوں کا نقصان نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کو خوفزدہ کرنے اور اُن کی اجتماعی آواز کو خاموش کرنے کی حکمتِ عملی کا دیرینہ حصہ ہے۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ زبیر بلوچ ہمیشہ مظلوم خاندانوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے، احتجاجوں میں شریک ہوئے اور اپنی تحریروں و تقریروں کے ذریعے بلوچ عوام کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔ اُن کی شہادت بلوچ جدوجہد پر ایک اور گہرا زخم ہے، مگر ساتھ ہی یہ اس امر کا اعلان بھی ہے کہ طاقت اور جبر بلوچ عوام کے حوصلوں کو توڑ نہیں سکتے اور نہ ہی انھیں اپنی جدوجہد سے دستبردار کرسکتے ہیں۔