بلوچستان کے ضلع گوادر کے تحصیل پسنی میں غیرمقامی ماہیگیر اور اُنکے حمایتی فیکٹری مالکان کے خلاف مقامی ماہی گیروں نے احتجاجاً اسسٹنٹ کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دیا اور فشریز آفس کو گھیرے میں لے لیا۔
مقامی ماہی گیروں نے الزام لگایا ہے کہ غیرمقامی ناخدا سرکلنگ کے ذریعے مچھلیوں کا شکار کررہے ہیں۔
پسنی میں مقامی ماہی گیروں نے غیرمقامی ناخدا اور اُنکے حمایتی سیٹھ اور فش کمپنی مالکان کے خلاف احتجاجا سمندر کا رُخ نہیں کیا اور اسسٹنٹ کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دیا۔
عبدالکریم فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے زیر اہتمام مقامی ماہی گیروں نے غیر مقامی ناخداؤں اور فش فیکٹری مالکان کے خلاف احتجاجی ریلی بھی نکالی اور نعرہ بازی کی۔
مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر غیر مقامی ناخداؤں کی بیدخلی، سرکلنگ کے خاتمے اور فش فیکٹری مالکان کے خلاف نعرے درج تھے۔
ریلی کا آغاز پسنی فش ہاربر سے ہوا اور مظاہرین اسسٹنٹ کمشنر پسنی کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا ۔
اس دوران انھوں نے شدید نعرے بازی بھی کی اور غیرمقامی ناخداؤں کی بیدخلی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی بھرپور شرکت کی اور ماہی گیروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
عبدالکریم فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے رہنما ناخدا عنایت بلوچ اور ماہیگیر رہنما عزیز اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم غیر مقامی سندھی ماہی گیروں کے ہرگز خلاف نہیں ہیں، لیکن سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہیگیر لانچوں میں ناخدا نہیں بن سکتے۔ ناخدا کی ذمہ داری مقامی افراد کو دی جانی چاہیے۔
” انہوں نے کہا غیرمقامی سندھی ناخدا سرکلنگ کے زریعے سمندر کو بانجھ بنا دیتے ہیں اور بڑےپیمانے پر مچھلیوں کی نسل کشی بھی کرتے ہیں جس سے مقامی ماہی گیر بے روزگار ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں سندھی ماہی گیروں سے کوئی مسلہ نہیں ہے وہ بھی پاکستانی ہیں مقامی ناخدا کی سربراہی میں وہ جب چاہیے یہاں آکر روزگار کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مچھلی کے بیوپاری سندھ سے ماہی گیروں کو لاتے ہیں اور اِن بیچارے ماہی گیروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اُن کا حق کھا جاتے ہیں اور اِس ظلم میں سندھی ناخدا بھی بیوپاری اور فش کمپنی مالکان کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ غیر قانونی طور پر سرکلنگ کے زریعے مچھلی پکڑنے والے ناخداؤں اور فیکٹری مالکان کے خلاف فوری محکمہ فشریز مقدمہ درج کرئے۔