پہلی قسط :
دنیا کی تاریخ میں جنگوں اور تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیشہ بیانیہ اور پروپیگنڈہ کو استعمال کیاجاتا ہے ۔ بیانیہ (Narrative) کسی بھی جدوجہد یا واقعے کو معنی اور برہان فراہم کرتا ہے، جبکہ پروپیگنڈہ (Propaganda) اس بیانیے کو عوام تک پہنچانے کا عمل ہے۔ آج کے جدید دور میں روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی تحریکوں اور ریاستی بیانیوں کی تشکیل میں مرکزی کردار بیانیہ ہی ادا کر رہے ہیں۔
بیانیہ اور پروپیگنڈہ میں فرق
بیانیہ (Narrative) کسی تحریک جنگ یا مسئلے کو ایک خاص نقطۂ نظر سے پیش کرنا ، تاکہ عوامی حمایت اور جوش و ولولہ پیدا کرے۔
پروپیگنڈہ (Propaganda):
اکثر جب ہم لفظ پروپیگنڈہ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں منفی غلط تاثر آتا ہے۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح بیانیہ کسی مسئلے کو جواز دیتا ہے، اسی طرح پروپیگنڈہ اس بیانیے یا ایجنڈے کو عوام تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
ماڈل آف پروپگنڈہ model of propaganda
پروپیگنڈہ کی تین ماڈل ہیں جو بیانیہ کو الگ الگ طریقے سے پروپیگیٹ اور منظم اور مضبوط کرتے جو Black propaganda. Grey Propaganda. Green and white propaganda کہ نام سے جانے جاتے ہیں
پہلا۔۔ بلیک پروپیگنڈہ Black Propaganda
بلیک پروپیگنڈا ایسا پروپیگنڈہ ہوتا ہے جس میں (source) اور مقصد کو چھپایا جاتا ہے یا غلط ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس میں جھوٹ فریب افواہیں اور جعلی شناختیں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے یا مخالف پر بداعتمادی ڈالی جائے۔
مثال بلوچ قومی تحریک پاکستان اور بلیک پروپیگنڈہ
1 پاکستان بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور مقصد کو دنیا سے چھپاتا اور بلوچ تحریک کو بیرونی ایجنڈا فتنہ الہند ستان کا نام دے کر غلط ظاہر کرکے اس بیانیہ کو بنانے کی کوشش میں ہے کہ بلوچ بیرونی اور ہندوستان کےآلہ کار اور دہشتگرد ہیں ان کا آزادی کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک فالس پروپیگنڈہ ہے کیونکہ 1948 سے لیکر تا ہنوز بلوچ اپنی آزادی کو بحال کرنے کی کوششیں کررہی ہیں بندوق قلم اور ہر وہ ذرائع جو ان کے پاس ہیں
White propaganda 2
یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جس میں (Source) اور مقصد (Objective) دونوں کھلے عام ظاہر ہوتے ہیں۔
اس میں جھوٹ یا چھپاؤ کم ہوتا ہے بلکہ سچائی کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ مطلوبہ مقصد پورا کرے۔ زیادہ تر آزادی پسند تحریکیں White propaganda استعمال کرتی ہیں۔
بلوچ قومی تحریک میں white propaganda کا کرد
بنیادی مقاصد تحریک کی بیانیہ کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔بلوچ قومی تحریک کی بنیاد مقصد پاکستانی سے غلامی کا خاتمہ اور اپنی آزاد ریاست کی دوبارہ بحالی ہے جس پر پاکستان نے 27مارچ 1948 سے جبری طور پر قبضہ کیا ہوا ہے اور طویل عرصے سے بلوچوں کی معاشی کلچرل، ساحل اور وسائل کی بے دردی سے استحصال کررہا اور جب تک غلامی کی سیاہ رات باقی ہے ریاستی جبر بند نہیں ہوگی فرزندوں کی جبری گمشدگیاں ختم نہیں ہونگے ان کا آخری اور واحد حل بلوچ ریاست کی بحالی ہے۔
Grey Propaganda 3
گرے پروپیگنڈہ جس میں نہ مکمل سچائی ہوتی ہے نہ مکمل جھوٹ بلکہ دونوں white ،,اور ،black کو ملا کر پیش کیا جاتا ہے۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام یا ہدف شدہ گروہ کو شک و شبہ اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کیا جائے۔
جس میں دو طریقے ہیں
مثبت پروپیگنڈہ (Positive Propaganda)
منفی پروپیگنڈہ (Negative Propaganda)
مثال کے طور پر، ایک قوم کا بیانیہ اس کے لیے مثبت postive ہوتا ہے ، لیکن وہی بیانیہ دشمن کے لیے منفیnagative پروپیگنڈہ بن جاتا ہے مثال کے طورپر نواب اکبر بگٹی نے بلوچ تحریک کو نئی روح بخشی اور اس کی جدوجہد نے بلوچ تحریک کو توانائی فراہم کی جب کہ پاکستانی ریاست اسے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کرتاہے ۔
تاریخ، مذہب اور بیانیہ
تاریخ پس منظر میں دیکھا جائے تو سب سے پہلے عیسائی پوپ گریگوری نے ایک ادارہ قائم کیا جسے لاطینی زبان میں Congregatio de Propaganda Fide کہا جاتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب تھا ایمان کے پھیلاؤ کی انجمن، لیکن حقیقت میں پوپ گریگوری نے یہ ادارہ اس وقت کی بغاوتوں کو کچلنے اور اپنی طاقت و اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا۔
اس ادارے کا مرکزی دفتر اٹلی کے دارالحکومت روم میں واقع ویٹیکن سٹی کے اندر تھا۔ ویٹیکن سٹی کیتھولک چرچ کا مذہبی مرکز تھا اور یہیں سے پوپ پوری دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کی قیادت کرتے تھے۔ پوپ کی نگرانی میں پادریوں کی تربیت کی جاتی، تاجروں سے فنڈز اکٹھے کیے جاتے، مذہبی کتابیں چپوائی جاتیں اور دنیا کی سیاسی و جنگی معلومات کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔
اس وقت سب سے طاقتور حکمران عیسائی پوپ کو سمجھا جاتا تھا اور سب سے افضل مذہب عیسائیت کو مانا جاتا تھا۔ پوپ گریگوری نے اپنی طاقت، عیسائی مذہب اور سلطنت کو بڑھانے اور مزید مضبوط کرنے کے لیے قرونِ وسطیٰ میں مذہب کو بطور بیانیہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ عیسائیت دنیا پر حکمرانی کے لیے اللہ کی طرف سے منتخب کردہ مذہب ہے۔
اس بیانیے کے تحت عیسائیت کو پھیلانے کے لیے عیسائیت قبول کرنے کیلئے زور زبردستی کی گئی، غیر عیسائیوں کو کافر اور گناہگار قرار دے کر ایکس کمیونیکیٹ کیا گیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور ان کا مال و مویشی پوپ کے خزانے میں جمع کیا گیا۔ اسی بیانیے کے ذریعے اس وقت تک عیسائی پوپ نے دنیا پر اپنی ایک عظیم سلطنت قائم کر لی تھی، جہاں بڑے بڑے سلاطین اور بادشاہ بھی بےبس نظر آتے تھے کیونکہ پوپ کے پاس مذہبی عقیدہ اور عوامی حمایت کی طاقت موجود تھی جس کی مثال دیگر مذاہب میں بھی ملتا ہے ۔
جنگوں میں بیانیہ War and Narrative
جنگوں میں جنگ کو جائزیت فراہم کرنے کو بیانیہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر: جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے؟ بیانیہ یہ بتاتا ہے کہ دشمن کون ہے اور جدوجہد کس مقصد کے لیے کی جا رہی ہے اور دشمن کی کمزوریاں اور اپنا طاقت کیسے عیاں کی جاسکے تاکہ رائے عامہ کو اپنے طرف ہموار کیا جاسکے۔
جنگ یا تحریک میں لوگوں کی شمولیت کیلئے ٹھوس بیانیہ ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے جس طرح سیاست بغیر پالیسی کا بانج ہے اسی طرح تحریک بھی بغیر بیانیہ کے۔
اس کی ایک مثال حال ہی میں بھارت اور پاکستان کی جنگ ہے جس میں بھارت نے پہلگام حملے کو بطور جواز دنیا کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان شدت پسندوں کی آبیاری کررہا ہے اور پاکستان پر حملہ کیا۔ اگر پہلگام واقعہ نہیں ہوتا تو شاید بھارت کے پاس جنگ کرنے کا کوئی جواز اور بیانیہ نہ ہوتا۔
کسی بھی قسم کی جنگ میں سب سے پہلے بیانیہ ضروری ہوتا ہے تاکہ رائے عامہ کو اپنی حق میں تراشا جاسکے۔
ماس میڈیا اور سوشل میڈیا
آج بیانیہ کو پروپیگیٹ کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کا سب سے بڑا وسیلہ بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں پروپیگنڈہ اور بیانیہ کو مختلف طریقوں سے پروپیگیٹ کیا جاتا ہے جن میں فیس بُک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور مختلف ایپس شامل ہیں، جو بزنس سے لے کر سیاسی، علاقائی اور ریاستی بیانیہ کو پروپیگیٹ اور پھیلاتی ہیں۔ آج کے ماڈرن دور میں جنگوں میں ہار اور جیت کا فیصلہ بڑے بڑے ہتھیار نہیں کرتے بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کرتے ہیں۔ ایک campaign، ہیش ٹیگ، ایک ٹویٹ اور پوسٹ بیانیہ اور پروپیگنڈہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ٹویٹ اور پوسٹ کو بیانیہ اور پروپیگنڈہ کی جنگ کہا جاتا ہے جس کا بیانیہ مضبوط ہو جیت اسی کی ہوتی ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمیں حالیہ پاکستان اور انڈیا کی جنگ میں دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں انڈیا پاکستان کے اندر 13 جگہوں پر حملہ کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کو نقصان پہنچا اور پاکستان کے دفاعی نظام میں اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ حملوں اور جنگ کو روک سکے۔ پاکستان گراؤنڈ پر شاید شکست کھاتا لیکن سوشل میڈیا پر پاکستانی بیانیے اور بلیک پروپیگنڈہ نے گراؤنڈ میں اس ہار کو اپنی جیت میں بدل دیا۔
اور امریکی صدر اور بینل میڈیا نے پاکستانی اس بیانیہ کو تسلیم کیا کہ جیت پاکستان کی ہوئی انڈیا کے کئی جدید طیارے زمین بوس ہوئے۔
ایک ایسا misinformation پر مبنی مضبوط بیانیہ جو بین الاقوامی میڈیا تک پہنچا۔ پاکستان اور انڈیا کی جنگ پروپیگنڈہ اور بیانیے کی جنگ تھی جس میں بیانیہ کا پلڑا بھاری رہا۔
عرب اسپرنگ اور سوشیل میڈیا وار فیئر
اسی طرح 2011 کے عرب اسپرنگ کے دوران مغربی طاقتوں اور اسرائیل نے اپنے سیاسی و اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے ان عرب رہنماؤں کو براہِ راست ہدف بنایا جو امریکہ اور اسرائیل کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دیا جس کے تحت کرنل قذافی اور دیگر حکمرانوں کو آمر اور ڈکٹیٹر کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس بیانیے کو مقامی سطح پر مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا بطور ہتھیار استعمال ہئی جہاں مقامی تنظیموں اور گروہوں کی مدد سے ایک منظم misinformation campaign چلائی گئی بظاہر یہ ایک جمہوری تحریک تھی لیکن اسے پس پشت ہائی جیک بھی کیا گیا اس کے نتیجے میں عرب حکمرانوں کے تخت الٹنے لگے، پانچ صدور کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا کئی کو گرفتار کیا گیا اور دنیا میں یہ پہلا کامیاب social media warfare مانا جاتا ہے اور کچھ مبصرین اسے فیسبک انقلاب بھی کہتے ہیں کیونکہ عرب یوتھ نے فیسبک کے ذریعے اس بیانیہ کو عام کیا اور لاکھوں لوگ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔
(جاری ہے)
***