عالمی ادارے انصاف دلائیں،جمیل سرپرہ ورمضان کی گمشدگی کو15 سال ہوگئے ،ماما قدیر

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وی بی ایم پی کے کیمپ سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا شدہ بلوچ فرزندوں کی آئین پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہ کر رہائی کی ہماری اس پر امن و جمہوری تحریک کو آج 4017 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ہمارا مطالبہ انتہائی سادہ تھا اور اب بھی وہی ایک ہی بہت سادہ مطالبہ اب تک ہے۔کہ اگر حکومت پاکستان یا اسکی خفیہ ایجنسیاں سمجھتی ہیں کہ بلوچ سمیت پاکستان کی کوئی بھی شہری کوئی ایسی اقدام میں ملوث ہے کہ جو آئین پاکستان کے خلاف ہے تو عدالتوں کے ذریعے اسے گرفتار کرکے اسے آئین پاکستان و عدالتوں کے ذریعے جو بھی سزا دی جائے ہمیں من و عن قبول ہے مگر پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اور آرمی شہریوں کو اغوا کرکے از خود آئین پاکستان کو اپنے فوجی بوٹوں تلے روند رہی ہے۔

بلوچ زمین کی جبری الحاق سی لیکر آج تک بلوچ فرزندوں کی نسل کشی جاری ہے۔ستر کے عشرے میں ہزاروں مری ، مینگل بلوچ آرمی نے اغوا کیے تھے آج پچاس سال بعد بھی حکومت پاکستان یہ تک نہیں بتارہی ہے کہ انہیں کہاں اور کونسے اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا ہے۔سن 2000 سے بلوچوں کی جبری اغوا کا ایک نیا لہر شروع ہوچکا ہے کہ آج تک 54500 سے زائد بلوچوں کو اغوا کیا جا چکا ہے اور بیسیوں ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں ہمیں ملی ہیں۔

علی اصغر بنگلزئی 20 سال سے غائب ہیں۔ڈاکٹر دین جان۔ ذاکر جان سمیت ہزاروں بلوچ دس سال سے زائد عرصہ بیت گئے کہ آرمی کے ہاتھوں اغوا ہیں۔

آج اس وقت کہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں آپ سے مخاطب ہوں ، جمیل احمد ولد حاجی عبدالغنی سرپرہ کے جبری اغوا کو پانچ سال اور رمضان بلوچ کے پاکستانی ایجنسیوں و آرمی کے ہاتھوں جبری اغوا کو دس سال مکمل ہوچکے ہیں۔

جمیل احمد ولد حاجی عبدالغنی سرپرہ کو پچیس جولائی دوہزار پندرہ کو کوئٹہ کے علاقے گرین ٹاون سے آرمی اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا کہ آج تک اسکی کوئی خبر نہیں ہے۔

جامعہ بلوچستان سے صحافت سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جمیل احمد سرپرہ گورنر بلوچستان کے پی آر او تعینات تھے۔

جمیل احمد سرپرہ کے والد بھی دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرح اپنے بیٹے کی راہ تکتے وفات پا گئے۔

اسی طرح مشکے سے تعلق رکھنے والا محمد رمضان جو 25جولائی 2010 میں گوادر اپنے روزگار کے سلسلے میں جارہا تھے کہ راستے میں اوتھل چیک پوسٹ پر فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے رمضان کو مسافر بس سے اتار کر شدید تشدد کرتے ہوئے اغوا کیا۔ جسکا عینی شاہد اسکا بیٹا علی حیدر ہے۔علی حیدر دو ہزار تیرہ میں کوئٹہ تا کراچی ٹو اسلام آباد 3000کلومیٹر کے قریب لانگ مارچ میں بھی ہمارے ساتھ رہے کہ جو ہمارے تحریک کے کم عمر ترین ساتھی تھے۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری پاکستانی اداروں سے انصاف کی امید مکمل دم تھوڑ چکی ہے۔کیونکہ تمام اسارے حتی کہ پارلیمنٹ فوج کے باجگزار و تابع ہیں۔ ہماری عالمی انسانی حقوق و انصاف کے اداروں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنی انٹرسٹ سے بالا تر ہوکر اپنے منشور کے تحت عمل کرکے بلوچ نسلی صفایا کو روکھنے میں اپنا کردار اداکریں ۔

Share This Article
Leave a Comment