کراچی لیاری اور ماڑی پور سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے لواحقین نے ان کی عدم بازیابی کے خلاف پیر کے روز ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ میں اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاجی مارچ کیا اور بعدازاں مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا۔
احتجاج کرتے ہوئے ہاکس بے روڈ کو ماڑی پور کے مقام پر دونوں جانب سے آمد و رفت کے لیے بند کر دیا۔
اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی جنہوں نے ہاتھوں میں اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انصاف اور بازیابی کے مطالبات درج تھے۔
ریلی سنگھور پاڑہ سے شروع ہوکر ماری پور کی مرکزی سڑک پر پہنچی اور مظاہرین "سائیکل چوک” پر پہنچ کر شاہراہ پر دھرنے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ اس موقع پر شرکا نے مسلسل نعرے بازی کی جن میں "ہمارے پیارے واپس کرو”، "جبری گمشدگیاں بند کرو” اور "انصاف چاہیے” جیسے نعرے شامل تھے۔ دھرنے کے باعث ماری پور روڈ کا ٹریفک نظام بری طرح متاثر ہوا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری بھی موقع پر پہنچ گئی اور شاہراہ پر موجود رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی۔
اس دوران مظاہرین نے مزاحمت کی جس کے باعث پولیس اور احتجاجی شرکا کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تاہم تین گھنٹے تک جاری رہنے والا یہ دھرنا اس وقت ختم ہوا جب مظاہرین اور سرکاری حکام کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے اور حکام نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے یقین دہانی کرائی۔
مظاہرین نے اپنے پیاروں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو طویل عرصے سے لاپتہ رکھ کر نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے بلکہ درجنوں خاندان اذیت اور کرب میں مبتلا ہیں۔
لاپتہ نوجوانوں میں سیلان، شیراز، سرفراز، عبدالرحمن، رمیز، رحیم بخش اور زاھد علی شامل ہیں۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، بصورت دیگر انہیں رہا کرکے خاندانوں کو اس اذیت سے نجات دلائی جائے۔
مظاہرے کے دوران لاپتہ نوجوان شیراز بلوچ اور سیلان بلوچ کی بہن گل سدہ بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 23 مئی کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے اچانک چھاپہ مار کر ان کے دونوں بھائیوں کو حراست میں لیا۔ "اس دن کے بعد سے آج تک ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ ہمیں کسی عدالت میں پیش کرنے کی خبر ملی اور نہ ہی کوئی سرکاری اطلاع دی گئی۔ ہمارے گھر میں ویرانی چھا گئی ہے اور خاندان شدید ذہنی و مالی مشکلات کا شکار ہے۔”
اسی طرح سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میرا بیٹا کئی مہینوں سے لاپتہ ہے۔ میں ایک ماں ہوں اور میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے۔ اگر میرے بیٹے نے کوئی قصور کیا ہے تو عدالت میں پیش کرو، مگر یوں چھین لینا ایک ماں کے لیے سب سے بڑا ظلم ہے۔ میں ریاست سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کو واپس کر دو۔” ان کے روتے ہوئے الفاظ سن کر احتجاج میں شریک کئی خواتین بھی اشکبار ہوگئیں۔
زاہد علی بلوچ کے والد حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 17 جولائی 2025 کی شام پانچ بجے کراچی کے علاقے لیاری سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، سادہ لباس اہلکاروں نے زاہد کو زبردستی ایک گاڑی میں ڈال کر اس کے رکشے سمیت لے گئے، جس کے بعد سے آج تک اُس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ انہوں نے کہا کہ "میں نے درجنوں بار پولیس اسٹیشنز اور سرکاری دفاتر کے چکر لگائے لیکن کسی نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا۔ میرا بیٹا کہاں ہے، یہ جاننے کا ہمیں حق ہے۔”
مظاہرین نے دیگر لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا۔ ان میں رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں جنہیں اہلخانہ کے مطابق مئی کے مہینے میں مختلف تاریخوں پر لاپتہ کیا گیا۔
رمیز بلوچ کو 24 مئی، رحیم بخش بلوچ کو 23 مئی اور رحمان بلوچ کو 24 مئی کو اٹھایا گیا، مگر آج تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ اسی طرح میر بالاچ بلوچ اور صادق مراد بلوچ کی گمشدگی کا بھی ذکر کیا گیا جن کے لواحقین کئی ماہ سے اپنے پیاروں کے انتظار میں ہیں۔
مظاہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ جبری گمشدگیوں نے بلوچ خاندانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ گھروں میں ماؤں کی آنکھیں مسلسل اپنے بچوں کی راہ تک رہی ہیں جبکہ بہنیں بھائیوں کے انتظار میں ہیں۔ مرد حضرات اپنے روزگار اور معمولات زندگی کو چھوڑ کر ہر روز تھانوں، عدالتوں اور احتجاجی کیمپوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
ریلی کے اختتام پر مظاہرین نے اعلان کیا کہ اگر ان کے پیاروں کو جلد بازیاب نہ کیا گیا تو وہ احتجاج کو مزید وسعت دیں گے اور شہر کے دیگر اہم مقامات پر بھی دھرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مطالبہ صرف انصاف اور اپنے پیاروں کی بازیابی ہے، جو آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔