ڈاڈائے بلوچ اور شہدائے اگست

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

اداریہ

(نوٹ : یہ سنگر میگزین کی سال 2017 کی ماہ اگست کی اداریہ ہے جسے آج شہید نواب اکبر خان بگٹی کی یوم شہادت اور شہدائے اگست کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جاریا ہے ،ادارہ)

سرمایہ دارانہ و سامراجی نظام اور انسان کی بالادستی اور سماجی نابرابری کے محافظ و ترجمان رجعتی نظریات کے پیرو کار انسانی فطرت و جبلت کی ایک ایسی تعریف کرتے ہیں جس کے مطابق انسان فطری طور پر لالچی،موقع پرست اور سفاکانہ خصوصیات کا حامل ہے اسی لئے عمومی سماجی اقتصادی نابرابری،استحصال اور قومی و طبقاتی جبر سمیت انسان پر انسان کی بالادستی کو یہ حلقے ناقابل تغیر قرار دیتے ہوئے اس کے تا ابد قائم رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں،لیکن نوع انسانی کی پوری تاریخ اور تمدنی زندگی کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف سماجی ادوار کی تبدیلیاں اور ان میں شامل قربانیوں سے بھر پور انسانی کردار جگہ جگہ اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاریخی سچائیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ انسان فطری یا جبلی طور پر نہ تو لالچی ہے اور نہ ہی سفاک و خودغرض،اگر ایسا ہوتا تو اعلیٰ انسانی تہذیب اور اقدار کبھی جنم نہ لے سکتیں،اور انسان تاحال ایک حیوانی معاشرے میں زندگی گزار رہا ہوتا،کیونکہ اپنی فطرت اور جبلت کے عین مطابق انسان میں دوسرے انسانوں کیلئے ایثار و قربانی اور محبت و تعاون کے احساسات و جذبات نہ ہوتے،لہٰذا بعض ماہرین و محققین کا کہنا ہے کہ انسان میں پائی جانے والی خود غرضی لالچ، اور سفاکیت اس کی فطرت کی عکاس نہیں بلکہ انسانی سماجی ارتقائی عمل کے ایک مخصوص دور کی پیداوار ہیں، جس میں گزرتے وقت کے ساتھ تغیر و تبدل کا عمل جاری رہا ہے، اور انسان نے ہی انسان کی پیداکردہ ان منفی خصوصیات اور نظریات و سماجی ڈھانچوں کو بدلنے کی انتھک کو ششیں کیں جن میں وہ بار ہا کامیاب بھی نظر آیا،جبکہ فطری طور پر انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا،البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خود غرضی،اور لالچ اور سفاکیت و حیوانیت نوع انسانی نہیں بلکہ ایک مخصوص بالادست انسانی گروہ یا طبقے کی فطرت و جبلت میں ضرور شامل ہے،جو قومی طبقاتی تفریقات سمیت انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے فکرو عمل کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا سے مٹ جائیں گے،تب انسانی جبلت کی حقیقی تعریف سامنے آسکے گی۔

اس ضمن میں بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کی تاریخ انسانی فطرت و جبلت کی حکمران و بالادست قوتوں کی تعریف کی یکسر نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جس میں شامل انسانی کردار خود غرضی و لالچ کی بجائے قومی و اجتماعی مفاد کے حصول کیلئے اپنی زندگیاں نچھاور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،حالانکہ حکمران قوتوں کی طرف سے انہیں ذاتی و گروہی مفادات کے حصول کیلئے ہر قسم کا لالچ دیا جاتا رہا لیکن ان کی انسانی جبلت و قومی فطرت نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے عیش وآرام سمیت اپنی جانوں کو بھی قربان کردیا۔

بلوچ سماج میں ایسے کردار کوئی دوچار نہیں بلکہ ان کی ایک طویل ترین قطار نظر آتی ہے،جس میں عام بلوچ و ادنیٰ کارکن سے لے کر صف اول کے رہنما تک سب شامل ہیں، ان کرداروں کا فکرو عمل ہر قسم کے جبرو تسلط کیخلاف جدوجہد میں اپنی مثال آپ رہا ہے، کیونکہ ہر کردار کی انقلابی سرگرمی نے بلوچ جہد کو مزید بلندیوں تک پہنچایا ہے،اس سلسلے میں ممتاز بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کئی منفرد اور نمایاں خصوصیات کا حامل ہے، ان کا ایک ایسا تاریخی کردار سامنے آیا جس سے یہاں ابھرنے والی تحریک آجوئی کی رفتار اور وسعت حیران کن طور پر کئی گنا بڑھ گئی، نواب بگٹی کی شہادت سے ایک روز قبل جو بلوچستان تھا وہ آپ کی شہادت کے بعد پھر کبھی دکھائی نہیں دیا۔

آپ کے یوم شہادت 26،اگست 2006ء کو جیسے ہی یہ خبر بلوچ قوم کے کانوں تک پہنچی کہ جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت نے تراتانی کے مقام پر آپ کو پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فوجی آپریشریشن کے دوران درجنوں ساتھیوں سمیت شہید کردیا ہے تو پوری بلوچ قوم شدید غم و غصہ کے عالم میں سڑکوں،گلیوں،شہروں و دیہاتوں سمیت بلوچستان کے کونے کونے میں گھروں سے نکل آئی، ہر طرف شدید احتجاج،جلاؤ گھیراو،حکومتی اثاثوں پر حملوں اور مسلح مزاحمت کا ایک نہ تھمنے والا طوفان نظر آتا تھا۔

نوجوان دھڑا دھڑ مزاحمتی تحریک کا رخ کرنے لگے،اور بلوچ سماج میں مزاحمتی تحریک کو وسیع عوامی بنیادیں حاصل ہوئیں۔اس ابھار کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ نواب بگٹی کی شہادت نے بلوچ تحریک کے اس طویل سفر کو لمحوں میں طے کردیا جس کیلئے ان کی شہادت سے قبل کئی دہائیاں درکار تھیں،کیونکہ نواب بگٹی کی شہادت سے بلوچ سماج کا وہ حصہ جو تحریک سے وابستگی اور قربتوں کا حامل نہ ہوتے ہوئے خاموش اور لا تعلق تھا وہ بھی تحریکی صفوں میں شامل ہو گیا، یہ وہ لمحات تھے جب حکومت نواز پارلیمانی اور غیر انقلابی سیاسی جماعتوں و قیادتوں کے اثر سے بلوچ سماج ایسے نکل گیا جیسے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہے،اور بلوچ معاشرے کی بھاری بھر کم اکثریت مزاحمتی تحریک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال چکی تھی، جس کے باعث ماضی میں وسیع عوامی و پارلیمانی نمائندگی کی دعویدار پارٹیاں اور قیادتیں محض ڈھانچے اور ایک ٹانگے کی سواری میں بدل چکی تھیں، اور یہی وہ وقت بھی تھا جب بلوچ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ ابھر کر سامنے آیا، اور بعض پاکستانی سیاسی جماعتوں وقیادتوں کی طرف سے بھی نواب بگٹی کی شہادت کو بلوچستان سے ہونے والی ناقابل تلافی زیادتیوں میں اضافہ قرار دیا گیا، غرض جو کام نواب بگٹی اپنی زندگی میں نہ کرسکے وہ ان کی شہادت نے لمحوں میں کر دکھایا۔

شہدائے اگست کی فہرست طویل ہے۔2006 کو جہاں پاکستانی فورسز نے بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی و ساتھیوں کو شہید کیا پھر یہ سلسلہ نہ روکا، اگلے ہی برس اگست کے مہینے عظیم گوریلہ کمانڈر ڈاکٹر خالد اور دلوش بلوچ ریاستی فورسز کو پسپا کرکے وطن کی دفاع میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے،پھر کیا تھا فورسز کی بربریت و شہادتیں اور کہیں فرزندوں کی بلوچ وطن کے دفاع میں محاذ جنگ میں شہادتیں۔

2008 نواب بگٹی کی برسی کے مناسبت سے تربت میں تاریخی جلسے میں الطاف بلوچ کی شہادت نے تاریخ رقم کرکے شہید ہوگئے، اسی روز کوہ مری میں 19 خواتین بچوں کو بھوندکر نواب بگٹی کی برسی کا جشن منایاگیا،اگلے ہی برس2009 اگست کے آخر ی روز بی این ایم کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری رسول بخش کی شہادت نے اگست کے مہینے کی اہمیت کو بلوچ تاریخ میں مزید اہم کردیا۔2010 اگست کو بیس بلوچ فرزند جبکہ2011 اور 2012 میں 34 بلوچ فرزند وں کو شہید کیا گیا جس میں حراستی قتل عام زیادہ رہی۔بی این ایم سی سی ممبر ساجد بلوچ بھی اسی حراستی قتل عام کا نشانہ بنے۔

2013 اگست کے ماہ نے خون آلود شکل اختیار کیا،جب بی این ایم کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات حاجی رزاق بلوچ سمیت تین بلوچوں کی مسخ لاشیں کراچی سے ملیں اور کیچ میں بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر اور بی این ایم کے مرکزی ریجنل آرگنائز امداد بلوچ کو فورسز نے گھر میں گھس کر شہید کیا،اس مہینے 39 بلوچ فورسز کی جارحیت کا نشانہ بن کر خاکِ وطن کا حصہ بن گئے۔

2014 کا اگست بھی خون آلود رہا،آواران ذگرخانہ میں آئی ایس آئی و مذہبی شدت پسندوں نے 7 بلوچوں کو بھوند نے کے ساتھ اسی قبیل کے لوگوں نے کوئٹہ میں صافی ارشاد مستوئی،عبدالرسول،یونس بلوچ کو حق و سچائی بیان کرنے پر ابدی نیند سلا دیا۔محاذ جنگ میں کمبر قاضی جیسے نوجوان نے بھی اپنی لہو شامل کرکے اگست کو شرف بخشا،اسی ماہ37 بلوچ ریاستی جبر کی بھینٹ چڑ گئے۔2015 اگست کے مہینے ڈیرہ بگٹی میں فوررسز نے درجن قریب خواتین و بچوں کو شہید کرنے کے ساتھ محاذ جنگ میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے بھائی علی نواز گوہر نے بھی دشمن کو نیست و نابود کر کے جام شہادت نوش کی۔

اس مہینے 26 بلوچ شہید ہوئے جس میں زیادہ تر تعداد خواتین و بچوں کی رہی۔2016 اگست بھی لہولہان رہا جہاں پاکستانی بمباری سے ڈیرہ بگٹی میں چار خواتین و بچے شہید ہونے کے ساتھ کوہ مری میں بمباری سے9 مری بلوچوں نے حق وطن ادا کیا، اسی طرح آزادی پسند رہنما اختر ندیم بلوچ کے بھائی شاہد بلوچ اور تین سرمچاروں نے محاذ جنگ میں تاریخ رقم کرتے ہوئے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ نواب بگٹی کی شہادت سے اگست کے مہینے نے جو تاریخ رقم کی اسے تمہاری بربریت خوفناک نہیں بنا سکتی۔ادارہ سنگر کے کے پاس دستیاب اعداد و شمار و تفصیلی ریکارڈ کے مطابق سال 2006 سے2016 تک اگست کے مہینوں میں 443 بلوچ فرزند شہید ہوئے جس میں بڑی تعداد حراستی قتل عام و زمینی و فضائی بمباری کی ہے۔

بلوچ قوم چاہے کچھ بھی کر لے حکمران قوتیں کبھی بھی نہ تو اس کا وجود اور جدا گانہ قومی شناخت کو تسلیم کریں گی،نہ ہی عالمی قوانین کے مطابق مقبوضہ بلوچستان کو آزاد ہونے دینگے،بلوچ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ شعوری جہداور شہدائے بلوچستان کی فکر و نظریہ کو اپنا رہنما بنائیں،شہدائے اگست کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے علمی فکری،سیاسی،قلمی،مزاحمتی جہد کا حصہ بن کر آزاد بلوچستان کے خواب کوپایہئ تکمیل تک پہنچائیں۔


***

Share This Article