ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) مکران ریجن کے زیراہتمام، یورپی یونین کے تعاون سے "باعزت روزگار۔۔۔ہر شہری کا حق” کے عنوان سے پروگرام منعقد ہوا۔
پروگرام سے ایچ آر سی پی مکران ریجن کے کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز، ایڈووکیٹ عبدالمجید دشتی،صحافی الطافی بلوچ،بشیر کسانوی،نوجوان قلمکار شگراللہ یوسف، سیاسی رہنما خان محمد جان گچکی، محمد کریم گچکی و دیگر مقررین نے خطاب کیا۔
پروفیسر غنی پرواز نے خطاب میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 23 کے مطابق ہر فرد کو روزگار، منصفانہ اور موافق حالاتِ کار، اور بے روزگاری کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہےریاست اور اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ ان حقوق کو عملی جامہ پہنائیں۔اسی طرح آئین پاکستان کیمطابق بھی معاشی تحفظ کا زمہ دار ریاست ہے مگر بد قسمتی سے عوام کو معاشی تحفظ دینے میں ریاست ناکام ہے۔
مقررین نے مکران ریجن کے سنگین معاشی مسائل اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں بڑی صنعتوں اور فیکٹریوں کا عملی فقدان ہے، روزگار کے منظم ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگاری، ہجرت اور عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ شرکاء نے حکومتِ بلوچستان اور وفاقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ مکران میں انڈسٹریل زونز، اسکل ڈویلپمنٹ سینٹرز، چھوٹے و درمیانی درجے کے کاروبار (SMEs) کے لیے مراعات اور پبلک سیکٹر روزگار کے شفاف مواقع فوری فراہم کیے جائیں۔
اجلاس میں پاکستان بھر میں کم از کم اجرت کے نفاذ اور اس پر موثر عملدرآمد پر زور دیا گیا۔
مقررین نے مختلف صوبوں کے تنخواہوں غیر ہنرمند مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت 40,000 روپے ماہانہ (موثر از 1 جولائی 2025) مقرر ہے۔
پنجاب: غیر ہنرمند کارکنان کے لیے 37,000 روپے ماہانہ (موثر از 1 جولائی 2024) نوٹیفائی کی گئی۔
بلوچستان: صوبے میں 37,000 روپے ماہانہ کم از کم اجرت لاگو ہے (سرکاری عملدرآمد کی تاریخ 12 اکتوبر 2024 رپورٹ ہوئی)۔
خیبر پختونخوا: 36,000 روپے ماہانہ کم از کم اجرت کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا (4 ستمبر 2024)۔
وفاقی/اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری: وفاق نے 37,000 روپے کم از کم اجرت کی منظوری و نوٹیفکیشن جاری کیا۔
مقررین نے توجہ دلائی کہ زیادہ تر نجی کمپنیوں اور نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ، وزٹنگ فیکلٹی اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو نہ صرف بروقت ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ کئی جگہوں پر سرکاری طور پر مقررہ کم از کم اجرت سے بھی کم ماہانہ معاوضہ دیا جا رہا ہے، جو قانون اور بنیادی انسانی حقوق دونوں کے منافی ہے۔ شرکاء نے محکمہ محنت سے معائنہ/انسپیکشنز تیز کرنے، اجرتوں کی بروقت ادائیگی، کنٹریکٹس کی رجسٹریشن اور عدمِ تعمیل پر جرمانوں کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
اجلاس کے اختتام پر مشترکہ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مکران ڈویژن میں صنعتی بنچ مارک منصوبے، فنی تربیت، خواتین و نوجوانوں کے لیے خصوصی روزگار اسکیمیں، لیبر کورٹس/کمیشن کی رسائی اور کم از کم اجرت پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ایچ آر سی پی نے اعلان کیا کہ اجلاس کی سفارشات کا ایک باضابطہ مسودہ متعلقہ حکام اور منتخب نمائندوں کو ارسال کیا جائے گا، جبکہ یورپی یونین کے تعاون سے حقوقِ محنت اور باعزت روزگار کے موضوع پر آگہی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی۔
اس موقع پر مختلف قرار پیش پیش کیے گئے جن میں درج ذیل مطالبات پیش کیے گئے۔
1-مزدوروں کی کم ازکم اجرت 75ہزار مقرر کیا جائے۔
2-پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کو صوبائی حکومت کے وضع کردہ قوانین کیمطابق مقرر کرکے گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی انکو معاوضہ دیا جائے۔
3-ناصر آباد میں گزشتہ ایک ہفتے سے زیادہ بند بازار کو کھول کر عوام کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔
4-صوبائی دارالحکومت کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں صحافیوں کو اجرت اور معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔
تقریب کےبعد باعزت روزگار ہر خاندان کا حق کے عنوان پر علامتی مظاہرہ کیاگیا۔جہاں شرکاء نے پلے کارڈز اٹھائے رکھے تھے جن پر روزگار اور معاشی تحفظ کے عنوان پر نعرے درج تھے.