اسلام آباد احتجاج کو ایک ماہ مکمل، بلوچ لواحقین پریس کلب سامنے دھرنا دینے میں کامیاب

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کے احتجاج کا آج مسلسل 30 واں دن ہے۔

ہفتوں تک رسائی سے انکار کے بعد، اہل خانہ اب نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچنے اور دھرنا دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ان کے مطالبات بدستور برقرار ہیں: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی فوری رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ۔ ان میں عمر رسیدہ خواتین، بچے اور طلباء شامل ہیں جنہوں نے ایک ماہ کی شدید بارش اور گرمی، ایذا رسانی اور سڑکوں کی بندش کا سامنا کیا۔

آج بی وائی سی قائدین کی غیر قانونی حراست اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی دھرنے کا 30 واں دن منا یا گیا۔

حکام کی جانب سے پریس کلب کے قریب سڑکوں کو آج کلیئر کرا دیا گیا ہے، جنہیں پہلے بلاک کیا گیا تھا، اور دھرنا خاردار تاروں میں محصور تھا۔ اس لیے دھرنا پریس کلب کی طرف بڑھ گیا ہے جہاں اس کا مثالی مقصد تھا۔

پریس کلب تک جانے کے دوران لواحقین نے تمام صحافیوں، میڈیا پرسنز، طلباء اور عام لوگوں سے درخواست کی کہ وہ آئیں اور ہمارے ساتھ شامل ہوں کیونکہ ہم پریس کلب کی طرف بڑھ رہے ہیں تو کریک ڈاؤن کا خدشہ ہے۔

آج جب پورا پاکستان یوم آزادی منا رہا تھا تو اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ کئی دنوں سے جاری تھا۔

اس کیمپ میں شریک بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف ملک میں جشنِ آزادی کی تقریبات ہو رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف ان کے اپنے لاپتہ افراد کئی سالوں سے قید میں ہیں۔ یہ احتجاج اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے۔

اس دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لیڈران اور لاپتہ افراد کی رہائی کے خاطر ہونے والے دھرنے والے سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ محمود کی ماں غم سے نڈھال ہو کر گر پڑیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ آج جب پورا پاکستان جشنِ آزادی منا رہا ہے، لیکن بلوچ آج بھی شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر کھڑا اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر سراپا احتجاج ہے۔

مقررین نے کہا کہ اس ماں کی ہمت کو سلام جو گرنے کے باوجود حوصلہ نہیں ہاری، بلکہ بہ آوازِ بلند اپنے بیٹے کی بازیابی کا نعرہ دہرا رہی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس وقت اُست کمزور نہیں پڑنا، وہ جانتی ہے کہ اُس کا دشمن ایک بے حس درندہ ہے، اسی لئے وہ ہمت نہیں ہارتی بلکہ اپنے بیٹے کی آزادی کے مانگ کو نعرہ میں تبدیل کرکے بلند آواز میں دہراتی ہے۔

احتجاجی مظاہرے سے انسانی حقوق کے وکیل ایمان مزاری ، سمی دین بلوچ ، نادیہ بلوچ ، زبیرشاہ آغا،ماہ زیب بلوچ اور دیگر نے خطاب کیا۔

Share This Article