ارمان لونی قتل کیس میں عدالت نے ایس ایس پی عطاالرحمن اور دیگر پولیس اہلکاروں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا ہے۔
ایڈیشنل اینڈ سیشن جج لورالائی کی عدالت نے ارمان لونی کیس میں عدم ثبوت کی بنیاد پر ایس ایس پی عطاالرحمن ترین اور ان کے چھ ساتھی پولیس اہلکاروں کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
کیس میں ایس ایس پی عطاالرحمن ترین کی قانونی نمائندگی وکیل ایڈووکیٹ محمد اکبر کاکڑ نے کی۔
بری ہونے والوں میں ایس ایس پی عطاالرحمن ترین سب انسپکٹر محمد شریف موسے خیل، انور جلالزئی، جہانگیر خدرزئی، حوالدار حمید ترہ کی اور یوسف اوتمانخیل شامل ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا، کیونکہ کوئی ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد پیش نہیں کیے جا سکے۔
اس بنیاد پر عدالت نے تمام نامزد ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد ایس ایس پی عطاالرحمن ترین، ان کے ساتھیوں، وکلا اور حامیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے انصاف کی فتح قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کے ذریعے کسی فرض شناس اور دیانتدار افسر کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔
واضع رہے کہ پاکستان کی عدلیہ میں تعینات ججز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بس اسٹیبلشمنٹ کی مفادات کے محافظ ہیں انہیں عدل و انصاف کے لئے کوئی سرکو کار نہیں ہوتا۔
ارمان لونی پشتو ادب کے استاد، شاعر، اور پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
ارمان 2 فروری 2019 کو بلوچستان کے علاقے لورالائی میں پریس کلب کے باہر پی ٹی ایم کے ایک احتجاجی دھرنے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے انتقال کر گئے۔
2019 کے لورالائی حملے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ارمان اور اس کی بہن ورنگا لونی سمیت پی ٹی ایم کے کارکنوں کی طرف سے چار روزہ دھرنا دیا گیا تھا، جس میں 29 جنوری 2019 کو پاکستانی طالبان کے ہاتھوں8 پولیس اہلکار اور ایک شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کے اہل خانہ اور پی ٹی ایم کارکنوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان پر اور دیگر کارکنوں پر حملہ کیا تو ایک پولیس اہلکار نے ارمان کے سر پر بندوق سے وار کیا جس سے وہ گر گیا۔
تاہم پولیس ترجمان کے مطابق مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔