سمی بلوچ کی اہم پریس کانفرنس: بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی تفصیلی رپورٹ پیش

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے جمعرات کے روز کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں بلوچستان میں ریاستی فورسز کی جانب سے جاری جبر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کی ۔

سمی دین بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس میں ہم دو موضوعات پر بات کریں گے۔ پہلے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ششماہی رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کی تفصیل ہم آپ تک پہنچائیں گے۔ اس کے بعد، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کے خلاف لواحقین کی جانب سے اسلام آباد میں جاری پرامن احتجاج پر بات کریں گے، جہاں انہیں ریاستی ظلم کا سامنا ہے۔

انہو ں نے کہا کہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے آج آپ کے سامنے بلوچستان میں انسانی حقوق کی ششماہی رپورٹ (جنوری تا جون 2025) پیش کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں، بلکہ بلوچستان کے باسیوں کی تکلیف، ظلم اور ریاستی جبر کی داستان ہے۔ بلوچستان اس وقت مکمل طور پر جنگل کے قانون کے تحت ہے، جہاں نہ صرف بنیادی انسانی حقوق معطل ہو چکے ہیں، بلکہ آئین، قانون اور انصاف کے تمام ستون بھی مکمل طور پر معطل ہیں اور مسلسل پامال کیے جا رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک فکرانگیز دستاویز ہے، جسے متاثرہ خاندانوں، عینی شاہدین، مقامی انسانی حقوق کے اداروں اور شہادتوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما نے اپنے پیش کردہ رپورٹ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ریاستی فاشزم کو مختلف کیٹیگری میں واضع اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

1۔ جبری گمشدگیاں
رپورٹ کے مطابق، سال کے پہلے چھ ماہ میں 752 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان میں سے 181 افراد کو مختصر مدت کے بعد رہا کیا گیا، جبکہ 25 کو دورانِ حراست قتل کر دیا گیا۔ باقی 546 افراد تاحال لاپتہ ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو ان کی حالت یا مقام کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ سب سے زیادہ کیسز مکران ڈویژن سے رپورٹ ہوئے، اور فرنٹیئر کور (FC) زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں ملوث پایا گیا۔ جبری گمشدگیوں کی یہ لہر بلوچ سماج کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔

2۔ ماورائے عدالت قتل
جنوری سے جون 2025 کے دوران 117 ماورائے عدالت قتل رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز جعلی مقابلوں، "مارو اور پھینک دو” پالیسی، اور زیرِ حراست قتل سے جُڑے ہیں۔ مقتولین میں زیادہ تر نوجوان، طلبہ، اور سیاسی شعور رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ قتل عام نہ صرف بلوچ نسل کشی پالیسی کا حصہ ہے بلکہ اجتماعی سزا کی پالیسی کا بھی حصہ ہے، جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری بلوچ قوم ہے۔ بلوچستان میں آئین اور قانون اس قدر معطل ہیں کہ کوئی شنوائی، قانونی چارہ جوئی یا جوابدہی ممکن نہیں رہی۔

3۔ ریاستی تشدد
جبری گمشدگی کے شکار تقریباً ہر فرد کو دورانِ حراست سخت جسمانی و ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، ماورائے عدالت قتل ہونے والے ہر فرد کی لاش پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے، جو اس امر کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے شہریوں پر غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ تشدد کا مقصد نہ صرف معلومات حاصل کرنا ہے بلکہ خوف پیدا کرنا اور پورے سماج کو مفلوج رکھنا ہے۔

4۔ اجتماعی سزا
بلوچستان میں اجتماعی سزا کے واقعات اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں نہ صرف افراد بلکہ پورے خاندان اور برادری کو سزا دی جاتی ہے۔ جن لوگوں کے عزیز لاپتہ ہوتے ہیں، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بچوں کو خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔

5۔ شہری آزادیوں کی معطلی
بلوچستان میں اظہارِ رائے، پرامن احتجاج، اور نقل و حرکت کی آزادی مکمل طور پر معطل ہے۔ BYC جیسے سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں کو نہ صرف دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے، بلکہ ان کے رضاکاروں اور قائدین کے خلاف جعلی ایف آئی آر، تھری ایم پی او، اور فورتھ شیڈول جیسے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست اپنے جبر کو جائز قرار دینے کے لیے آئینی ڈھانچے کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

6۔ قانون بطور ہتھیار
2025 میں بلوچستان اسمبلی کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم نے ریاستی اداروں کو مزید غیر مشروط اختیارات دے دیے ہیں۔ اب کسی کو بھی بغیر الزام کے تین ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم میں فوجی افسران کو بھی نظرثانی بورڈز میں شامل کیا گیا ہے، جو انصاف کی غیر جانبداری کے اصول کے منافی ہے۔ یہ قانون اب انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں، طلبہ اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس چھ ماہ کے دوران اقوامِ متحدہ کے ماہرین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایف ایل ڈی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کے عالمی وعدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ UN کی حالیہ رپورٹس میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور مظاہرین پر تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ICCPR، CAT، اور دیگر کنونشنز پر دستخط کر رکھے ہیں، جن کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

سمی دین بلوچ نے کہا کہ جیسا کہ آپ میں سے متعدد صحافیوں کے علم میں ہے کہ 16 جولائی 2025 سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت کے اہلِ خانہ اور بلوچ لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اسلام آباد میں ایک پرامن احتجاج کر رہے ہیں، جس کا مقصد سادہ اور واضح ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور دیگر اسیر رہنماؤں، بشمول ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد کی رہا کیا جائے۔

مگر ان لواحقین کے ساتھ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کا رویہ انتہائی غیر انسانی اور افسوسناک ہے۔ نہ صرف ان لواحقین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ٹینٹ لگانے سے روکا گیا، بلکہ انہیں شدید بارش اور گرمی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ خواتین، بزرگ اور معصوم بچے بغیر کسی چھاؤں کے سڑک پر بیٹھے ہیں۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ کا جبر صرف اسلام آباد پریس کلب تک محدود نہیں رہا، بلکہ شرمناک اور وحشیانہ حد تک بڑھ چکا ہے۔ ان لواحقین کو رات کی تاریکی میں کرایے کے فلیٹ سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ پہلے اس فلیٹ کا پانی بند کیا گیا، پھر پولیس کے دباؤ پر مالک مکان نے رات ایک بجے ان بوڑھی ماؤں اور معصوم بچوں کو نکال دیا، جو پوری رات اسلام آباد کی سڑکوں پر دربدر رہے۔ دن کے وقت جب وہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کے لیے جاتے ہیں تو پریس کلب کے سارے راستے بند کر دیے جاتے ہیں، اور انہیں روڈ پر غیر محفوظ طریقے سے بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پولیس نے خاردار تاروں سے گھیر کر انہیں مکمل محاصرے میں لیا ہوا ہے، اور ان کے سامنے دو بسیں کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ اسلام آباد کے شہری ان ماؤں اور بچوں کو دیکھ نہ سکیں۔ آج اسلام آباد احتجاج کا نواں روز ہے، اور وہ لواحقین گزشتہ نو دنوں سے انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔جبکہ وہاں موجود بلوچ طلبا ء نے ان ماوٴں اور بچوں کو اپنے فلیٹ میں رہائش کے جگہ فراہم کی تو کل رات خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس فلیٹ پر چھاپہ مارا جہاں طلباء کے قیمی سامان کو اپنے ساتھ لئے گئے اور اسلام آباد میں بلاتفریق بلوچ طلباء کو ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کی نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ کی جارہی ہے، اس عمل نے نہ صرف وہاں بلوچ لواحقین کو غیر محفوظ کردیا ہے بلکہ ان کے ساتھ کھڑے بلوچ طلبا ء بھی مکمل طور پر غیر محفوظ ہے۔

انہو ں نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت بلوچ عوام کی آواز ہے۔ آج اس آواز کو دبایا جا رہا ہے، ہماری پرامن سیاسی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ آواز اب مزید خاموش نہیں رہے گی۔ ہم آپ صحافیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ ان حقائق کو عوام تک پہنچائیں، کیونکہ خاموشی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ اگر ریاستی ادارے آئین سے روگردانی کریں گے تو صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ سچ بولیں، سچ لکھیں اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔

بی وائی سی رہنما نے مزید کہا کہ ہم عدلیہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کریں، اور ہماری پرامن جدوجہد کو طاقت سے کچلنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، طلبہ، مزدوروں، اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے پامالیوں کو دنیا کے سامنے لے آئے اورپ اسلام آباد کیمپ میں بیٹھے لواحقین کا ساتھ دیں اور ان مظلوموں کی آواز بنیں۔

Share This Article