شام میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ایک ہفتے میں تقریباً 600 افراد ہلاک

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

شام میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ایک ہفتے کے دوران تقریباً 600 افراد ہلاک ہوگئے ہیں ۔

ماورائے عدالت ان ہلاکتوں  میں  حکومتی فوجیوں کو موردالزام ٹہرایا جارہا ہے۔

شامی صدارت کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب میں بدو اور دروز جنگجوؤں کے درمیان مہلک فرقہ وارانہ جھڑپوں کو روکنے کے لیے ایک نئی فورس تعینات کی جائے گی۔

شام کے عبوری صدر احمد الشراع کے دفتر نے جمعے کو السویدا شہر کے قریب نئی جھڑپوں کی اطلاعات کے درمیان ’تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے‘ کی اپیل کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اتوار سے شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں اب تک تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ علاقے میں تعینات حکومتی فوجیوں پر مقامی باشندوں نے دروز شہریوں کو قتل کرنے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام لگایا ہے۔

اسی دوران اسرائیل نے شام میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے تاکہ فوجی السویدا صوبے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ جمعے کو ترکی میں امریکی سفیر نے کہا کہ اسرائیل اور شام نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پیغام میں امریکی سفیر ٹام بیرک نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور الشراع نے ایک ایسی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جسے شام کے ہمسایہ ممالک ترکی اور اردن کی حمایت حاصل ہے۔

مسٹر ٹام بیرک نے کہا کہ ’ہم دروز، بدو، اور سنی برادریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں اور دیگر اقلیتوں اور ہمسایوں کے ساتھ مل کر امن اور خوشحالی کے ساتھ ایک نئی اور متحد شامی شناخت تعمیر کریں۔‘

اسرائیل اور شام نے اس مبینہ جنگ بندی معاہدے پر تاحال کوئی عوامی تبصرہ نہیں کیا۔

الشارع کے دفتر کی جانب سے جنوب میں فوجی تعیناتی کے منصوبے کے اعلان سے کچھ دیر قبل، ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل نے شامی داخلی سکیورٹی فورسز کو 48 گھنٹوں کے لیے السویدا میں محدود داخلے کی اجازت دی ہے تاکہ ’موجودہ غیر مستحکم صورتحال‘ کے پیش نظر دروز شہریوں کی حفاظت کی جا سکے۔

السویدا کی اکثریتی دروز آبادی ایک خفیہ اور منفرد عقیدے کی پیروکار ہے جو شیعہ اسلام سے اخذ کیا گیا ہے، اور وہ دمشق میں موجود موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں رکھتی ہے۔

شام کے دارالحکومت میں بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اب دروز برادری کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔

دروز فرقے والے شام میں اقلیت میں ہیں۔ وہ پڑوسی ممالک لبنان اور اسرائیل میں بھی اقلیتی برادری ہیں۔

اس ہفتے کے اوائل میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے کہا کہ ان کے دفتر کو قابلِ اعتماد اطلاعات موصول ہوئی ہیں جو وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں، بشمول فوری سزاؤں اور من مانی قتل و غارت، کی نشاندہی کرتی ہیں۔

فولکر ترک کے مطابق ان خلاف ورزیوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے ارکان، عبوری حکومت سے منسلک افراد، اور مقامی دروز و بدو جنگجو شامل ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا: ’یہ خونریزی اور تشدد بند ہونا چاہیے۔‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘

بی بی سی نے ماورائے عدالت ہلاکتوں اور دیگر خلاف ورزیوں کے الزامات پر شامی حکومت اور سکیورٹی فورسز سے رابطہ کیا ہے۔

جمعرات کی صبح ایک نشریاتی خطاب میں صدر الشراع نے وعدہ کیا کہ ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور دروز برادری کا تحفظ ’ترجیحات‘ میں شامل ہوگا۔

انھوں نے کہا: ’ہم ان لوگوں کا احتساب کرنے کے لیے پُرعزم ہیں جنھوں نے ہمارے دروز بھائیوں کے ساتھ زیادتی کی، کیونکہ وہ ریاست کی حفاظت اور ذمہ داری میں ہیں۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان جھڑپوں کے پیچھے ’باغی گروہ‘ ہیں، اور کہا کہ ان کے رہنماؤں نے ’کئی مہینوں سے بات چیت کو مسترد کیا ہوا ہے۔‘

Share This Article