بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسیر رہنماؤں کے اہلخانہ اور و لاپتہ افراد لواحقین نے ان کی غیر قانونی حراست اور ان کے کیسز کی قانونی کارروائی میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں کھلے آسمان تلے احتجاجی کیمپ قائم کرلیا ہے۔
جبکہ پولیس نے مداخلت کرکے لواحقین کو کیمپ لگانے سے منع کیا جس پر شرکا بغیر کوئی ٹینٹ لگائے کھلے آسمان تلے بارش میں دھرنا دیئے بیٹھ گئے ۔
اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے جاری کیمپ کے شرکاء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار پھر بلوچستان سے اپنی فریاد لیکر وفاقی دارالحکومت آئے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید یہاں ان کی آواز سنی جائے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمیں 21ویں صدی کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے یہاں آنا پڑا، کیونکہ بلوچستان کی صدائیں اپنی ہی سرزمین پر دبا دی جاتی ہیں۔ میڈیا پر شدید سنسرشپ نافذ ہے اور سچائی کے دروازے بند کیے جا چکے ہیں۔
بلوچستان آج انفارمیشن کے حوالے سے ایک “بلیک ہول” بن چکا ہے۔ وہاں سے صرف وہی خبریں باہر آتی ہیں جن پر اسٹیبلشمنٹ کی منظوری ہوتی ہے، اور وہ آوازیں جو ظلم و جبر کے خلاف اٹھتی ہیں، انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی ادارے بلوچستان کے زمینی حقائق سے نظریں چرا کر ایک مصنوعی امن کا بیانیہ پیش کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے باسیوں پر ایک بے رحم جنگ مسلط کی جا چکی ہے۔
آج ہم یہاں صرف اپنے غم کا اظہار کرنے نہیں، بلکہ ان سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کی نمائندگی کرنے آئے ہیں جو لاکھوں مظلوموں کے آواز ہیں، جنہیں صرف آواز بلند کرنے کی پاداش میں خاموش کر دیا گیا ہے۔ ہم ان بہادر اور نڈر سیاسی کارکنان کی طرف سے بولنے آئے ہیں، جنہیں صرف سچ بولنے کی پاداش میں قید کر دیا گیا ہے اور جن کا واحد “جرم” یہ تھا کہ انہوں نے بلوچستان میں انصاف اور امن کا مطالبہ کیا۔
ہم، ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، شاجی صبغت اللہ بلوچ، بیبگر بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ، ماما غفار بلوچ، اور عمران بلوچ کے لواحقین، آج یہاں موجود ہیں۔ یہ احتجاجی کیمپ ہم نے اپنے پیاروں کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف قائم کیا ہے، تاکہ اہلِ پاکستان اور بین الاقوامی برادری کو باور کروا سکیں کہ بلوچستان میں نہ صرف شدید محرومیاں اور ناانصافیاں موجود ہیں، بلکہ اب وہ لوگ بھی محفوظ نہیں جو پُرامن طریقے سے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
19 مارچ 2024 کو ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبگر بلوچ، گلزادی بلوچ اور دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی، جس کا مقصد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کو درپیش ریاستی ہراسانی کو اجاگر کرنا تھا۔ اس پریس کانفرنس کو جان بوجھ کر مسخ کر کے جعفر ایکسپریس حملے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ پریس کانفرنس کا ڈرافٹ اور ویڈیو آج بھی ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ اس کے بعد پورے صوبے میں ایک منظم کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ اس دوران 350 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا—جن میں سے کچھ کو مہینوں بعد رہا کیا گیا، لیکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ، بیبگر بلوچ، گلزادی بلوچ، ماما غفار بلوچ، شاجی صبغت اللہ بلوچ اور عمران بلوچ تاحال غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر قید میں ہیں۔
ابتدائی طور پر انہیں 3 ایم پی او (Maintenance of Public Order) کے تحت غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔ جب ہم نے عدالت کا رخ کیا تو ایک مہینے کے پیشیوں کے بعد کیس کو ہوم ڈیپارٹمنٹ منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں دوبارہ 3 ایم پی او کے تحت گرفتاری برقرار رکھی گئی، جس پر دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا اور مسلسل تاخیری حربوں کے بعد اس بار عدالت نے یہ کہہ کر درخواست خارج کر دی کہ مذکورہ افراد پر پہلے سے مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں، حالانکہ وہ مقدمات قابلِ ضمانت ہیں اور ان کی بنیاد پر گرفتاری کی طوالت غیر قانونی ہے۔ اس کے بعد ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود اب تک سپریم کورٹ میں بھی کیس کی سماعت نہیں ہو سکی۔
جبکہ 22 جون کو تین ایم پی او کی مدت ختم ہونے کے باوجود، انہیں 20 دن تک ہدہ جیل کوئٹہ میں مزید غیر قانونی طور پر قید رکھا گیا۔ اس کے بعد 8 جولائی کی صبح سویرے، ہمارے پیاروں کو بغیر کسی اطلاع اور پہلے سے 3 ایم پی او میں قید ہونے کے باوجود، ہدہ جیل کوئٹہ سے گرفتار کر کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت کے سامنے یہ جھوٹ بولا گیا کہ ان کی 3 ایم پی او کی مدت ختم ہو چکی ہے، اور جعلی ایف آئی آرز کی بنیاد پر 10 روزہ ریمانڈ لے کر انہیں تھانے منتقل کر دیا گیا۔
گزشتہ 9 روز سے وہ تھانے میں بند ہیں، اور ہمیں اپنے پیاروں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ہم نے تھانے کے سامنے دھرنا بھی دیا، اور عدالت سے ملاقات کی اجازت کے کاغذات بھی حاصل کیے، لیکن اس کے باوجود ہمیں ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ہمارے وکلا کو قانونی دستاویزات پر دستخط لینے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود پولیس غنڈہ گردی اور طاقت کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبگر بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، ماما غفار اور عمران بلوچ نہ تو مجرم ہیں اور نہ ہی دہشت گرد، بلکہ وہ لاکھوں مظلوموں کی آواز ہیں۔ وہ بلوچستان میں ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف پُرامن انداز میں آواز بلند کرتے رہے، اور آج انہیں اُن کی سیاسی و انسانی حقوق کی جدوجہد کے باعث مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست پُرامن سیاسی جدوجہد اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔
ہمارے اس احتجاجی کیمپ کے دو انتہائی واضح اور فوری مطالبات ہیں:
1- ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبگر بلوچ، شاجی صبغت اللہ بلوچ، عمران بلوچ اور ماما غفار بلوچ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
2- بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔
ہم پاکستان بھر کے صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنان، سیاستدانوں اور عام شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری آواز بنیں۔ ہم دنیا بھر کی حکومتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور اقوامِ متحدہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور ہمارے پیاروں کو رہا کیا جائے تاکہ بلوچستان کے عوام کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔