انڈیا کے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی چار روزہ لڑائی کے دوران اسے ایک سرحد پر پاکستان کے علاوہ چین اور ترکی کا بھی سامنا تھا اور چین پاکستان کو انڈیا کی عسکری تنصیبات کے حوالے سے لائیو معلومات فراہم کر رہا تھا۔
جمعے کو فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرِاہتمام نیو ایج ملٹری ٹیکنالوجیز کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انڈین فوج نے آپریشن سندور کے دوران کون سے سبق سیکھے۔
انھوں نے کہا کہ پہلا تو یہ کہ ایک سرحد تھی لیکن دشمن دو بلکہ اگر میں کہوں تین تو غلط نہیں ہو گا۔ پاکستان سامنے تھا اور چین اسے تمام ممکنہ مدد فراہم کر رہا تھا اور یہ زیادہ اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر آپ اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ پانچ سالوں میں 81 فیصد اسلحہ اور آلات جو پاکستان کو ملا ہے وہ سب چینی ساختہ تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی نے بھی پاکستان کو مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، بیراکتر ڈرون وہ پہلے ہی دے رہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی ڈرونز جنگ کے دوران نظر آئے، اور ان کے ساتھ ماہر افراد بھی موجود تھے۔
اس کے بعد انھوں نے چین کی سیاسی، جنگی اور داخلی حکمتِ عملی کے حوالے سے موجود 36 سٹریٹیجمز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ بھی درج ہے کہ ادھار کی چھری سے وار کرو۔
‘یعنی وہ خود شمالی سرحد پر وار کرنے کی بجائے اپنے ہمسائے کو استعمال کرے گا تاکہ وہ نقصان پہنچا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین نے یہ بھی جائزہ لیا ہو گا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو دوسرے ہتھیاروں کے سسٹمز کے خلاف ٹیسٹ کر پا رہا تھا، یعنی وہ اس کے لیے ایک لائیو لیب کی طرح تھا، اس لیے یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔
اس کے بعد جو سبق ہم نے سیکھا وہ سی 4 آئی ایس آر اور سول ملٹری فیوژن کے حوالے سے تھا۔ اس حوالے سے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘۔
خیال رہے کہ سی 4 آئی ایس آر سے مراد کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلینس اور ریکانیسانس ہوتا ہے اور اسے کسی بھی فوجی آپریش کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
‘جب ڈی جی ایم او لیول پر بات چیت ہو رہی تھی تو پاکستان ہمیں بتا رہا تھا کہ آپ کے یہ اہم ویکٹر جارحیت کے لیے تیار کھڑے ہیں اس لیے انھیں وہاں سے واپس بلا لیں، تو انھیں چین سے لائیو معلومات مل رہی تھیں، یہ وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں ہمیں تیزی سے اقدامات لینے ہوں گے۔
پاکستان کی ایئرفورس کی جانب سے پریس بریفنگز کے دوران یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں کے باعث انڈین طیاروں کی جیمنگ عمل میں آئی تھی۔
اس حوالے ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کہا کہ ‘ہمیں الیکٹرانک وارفیئر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے بہتر ایئر ڈیفنس نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہماری شہری آبادی کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اسرائیل کے طرح آئرن ڈوم اور دیگر فضائی دفاعی نظام سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی سہولت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اور ان کی تعمیر میں بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اس حوالے سے نئے حل ڈھونڈنے ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور سبق یہ تھا کہ ہمیں محفوظ سپلائی چین بنانی ہو گی۔ جو آلات ہمیں اس سال جنوری یا گذشتہ برس اکتوبر، نومبر میں ملنے چاہیے تھے، وہ ہمارے پاس موجود نہیں تھے۔
‘جب 22 اپریل کے بعد ایک جگہ بات کرتے ہوئے میں نے متعدد ڈرون بنانے والی کمپنیوں سے پوچھا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ کتنی جلدی ہمیں ڈرون فراہم کر سکتے ہیں، تو متعدد لوگوں نے ہاتھ کھڑے کیے تھے، لیکن جب ایک ہفتے بعد میں نے انھیں دوبارہ کال کی تھی، تو کچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ ہماری سپلائی چینز ہیں، ہمیں اب بھی بہت ساری چیزوں کے لیے بیرونِ ملک دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ تمام آلات ہمیں مل جاتے تو کہانی کچھ مختلف ہوتی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ شکر ہے ہماری آبادی والے علاقوں کو خطرہ نہیں تھا۔ اگلے راؤنڈ میں، ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ ایئر ڈیفنس، زیادہ سے زیادہ جوابی راکٹس، آرٹلری اور ڈرون نظام کو تیار کرنا ہو گا اور اس کے لیے ہمیں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ماہ انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے ملک میں دفاعی ساز وسامان کے حصول اور ڈلیوری میں ہونے والی تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
گذشتہ دنوں ایک خطاب کے دوران ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے کہا کہ ایک بھی دفاعی منصوبہ کبھی وقت پر پورا نہیں ہوتا۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے کہا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کا وعدہ ہی کیوں کریں جو حاصل نہیں کی جا سکتی؟ کئی بار کسی معاہدے پر دستخط کرتے وقت ہی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ وقت پر نہیں ہو پائے گا لیکن ہم اس کے باوجود یہ کنٹریکٹ کرتے ہیں۔