انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے کہا ہے کہ جب سات مئی کو انڈیا نے پاکستان کے اندر حملے کیے تو اس کے پانچ منٹ بعد اسلام آباد کو اس بارے میں مطلع کر دیا تھا۔
منگل کو پونے کی ایک یونیورسٹی میں مستقبل میں جنگوں کے موضوع پر ایک خصوصی لیکچر میں جنرل انیل چوہان نے کہا کہ فوجی تصادم میں ہونے والے نقصانات آپریشن سے حاصل ہونے والے نتائج سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ وہ پاکستانی فضائیہ کی طرف سے انڈین طیارے مار گرانے سے متعلق اعتراف سنگاپور میں ہونے والے شنگریلا ڈائیلاگ کے موقع پر بھی کر چکے ہیں۔
جنرل انیل چوہان سے پاکستان کی جانب سے انڈیا کے طیارے گرائے جانے کے دعوؤں کے متعلق دو مختلف انٹرویوز (بلوم برگ اور روئٹرز) میں پوچھا گیا تو ان کے دیے گئے جواب نے بہت سے انڈین صارفین کو بظاہر ناراض بھی کیا۔
انڈین مسلح افواج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان نے پاکستان کی جانب سے طیارے گرائے جانے کے دعوؤں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے بلکہ یہ کہ وہ کیوں گرائے گئے۔ کیا غلطیاں ہوئیں، یہ باتیں اہم ہیں۔ نمبر اہم نہیں ہوتے۔‘
یونیورسٹی میں اپنے لیکچر میں جنرل انیل چوہان نے کہا کہ 10 مئی کی صبح تقریباً ایک بجے شروع ہونے والے پاکستان کے آپریشن کا مقصد 48 گھنٹوں میں انڈیا کو گھٹنے ٹیکننے پر مجبور کرنا تھا۔ ان کے مطابق ’پاکستان کی طرف سے کئی حملے کیے گئے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان نے سوچا کہ ان کی یہ کارروائی 48 گھنٹے تک چلے گی مگر تقریباً آٹھ گھنٹے میں ہی ان کی بس ہو گئی اور پھر انھوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور کہا کہ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پہلگام کے سیاحتی مقام بائیسیرن میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اس حملے کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اسلام آباد نے نہ صرف اس حملے کی شدید مذمت کی بلکہ غیرجانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
انڈیا نے 7 مئی کو پاکستان میں مختلف مقامات پر حملے کیے اور یہ دعویٰ کیا کہ اس نے آپریشن سندور کے دوران ’دہشتگردی‘ کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے۔
جنرل چوہان نے کہا کہ ’ہم نے پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کو بتایا تھا کہ ہمارا حملہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک ہی محدود تھا، اس میں عسکری تنصیبات یا اہداف شامل نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ان حملوں میں انڈیا نے یہ بھی یقینی بنایا کہ عام شہریوں کا نقصان نہ ہو۔