ایمان مزاری مظلوم اقوام کے لیے مشعل راہ ہیں،نادیہ بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب میں نے ایمان مزاری کو ناروے میں انسانی حقوق کا ایوارڈ حاصل کرتے دیکھا، تو دل میں ایک ایسی خوشی ابھری جو لفظوں سے ماورا تھی۔ ایک لمحے کو لگا جیسے برسوں کا درد، تھکن اور مایوسیاں سب مٹ گئیں۔ یہ اعزاز اُس کی بے لوث جدوجہد کا حقیقی اعتراف تھا,ایک ایسا اعتراف جس کی وہ مکمل طور پر حقدار ہے۔

نادیہ بلوچ نے کہا کہ میں نے ایمان کو قریب سے دیکھا ہے، صبح کی خاموشی میں وہ ایک تھانے سے دوسرے، ایک عدالت سے اگلی عدالت تک بھاگتی تھیں۔ ان کی یہ دوڑ صرف انصاف کے لیے تھی۔کسی لاپتہ فرد کی ایف آئی آر کے لیے، کسی بے سہارا ماں کے آنسو پونچھنے کے لیے۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب خیبرپختونخواہ سے ایک نحیف، بوڑھا شخص اُن کے پاس آیا تھا۔ اس کے بیٹے پر دہشتگردی کے سنگین الزامات لگے تھے، اور ماتحت عدالت نے عمر قید سنا دی تھی۔ ایمان نے ہار نہ مانی، ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور آخرکار اُس نوجوان کو رہائی ملی۔ میں نے اُس دن ایمان کی آنکھوں میں جو سکون دیکھا، وہ اس باپ کی خوشی سے بھی زیادہ گہرا اور بے خودی سے لبریز تھا۔ ایسا لگا، جیسے اُس رات صرف ایک خاندان نہیں، انسانیت نے بھی کچھ پل سکون کا سانس لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایمان کو میں نے اُن مقدمات میں بھی بے خوفی سے کھڑے دیکھا جنہیں باقی وکیل ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔توہینِ مذہب جیسے حساس معاملات میں۔ جب وہ کسی ماں کو گلے لگا کر نرمی سے کہتی ہیں: "میں پوری کوشش کروں گی، بیٹا واپس آئے گا”، تو یہ محض تسلی نہیں ہوتی، وہ امید کا ایک چراغ اور ایک لاچار ماں کی سہارا بن جاتی ہیں۔ ایک بار، مخالف وکیل نے عدالت میں مذہب کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، تو میں نے ایمان کو جج صاحب سے کہتے سنا: "میرے لیے سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ کوئی بے گناہ سزا نہ پائے”—یہ جملہ میرے دل و دماغ پر نقش ہو گیا، اور تب مجھے یقین آیا کہ کچھ لوگ واقعی حق اور انصاف کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔

نادیہ بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد کی گلیوں میں جب میں نے انہیں کام کرتے دیکھا، تو مجھے سمجھ آیا کہ انسان کی اصل پہچان نہ اس کی زبان ہے، نہ مذہب، نہ قوم ۔بلکہ اس کا ضمیر ہوتا ہے۔ ایمان ہر مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، خواہ وہ کسی بھی شناخت سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم، جن کے مقدمات انہوں نے لڑے، جن کے احتجاجوں میں وہ شریک ہوئیں، آج تک اُن کا شکریہ ادا نہ کر سکے۔ شاید اس لیے کہ شکریہ اپنوں کا نہیں، غیروں کا ادا کیا جاتا ہے، اور ایمان ہمیشہ اپنی لگتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب نوبیل انعام یافتہ ماریا ریسا نے ایمان کے بارے میں کہا کہ "انہوں نے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے”، تو مجھے لگا کہ یہ جملہ محض ایک تعریفی فقرہ نہیں، بلکہ ہم جیسے نوجوان وکلاء کے دل کی آواز ہے۔جو کمزور ہیں، ناتجربہ کار ہیں، لیکن خوابوں اور انصاف کی سچی لگن رکھتے ہیں۔ ایمان واقعی ہمارے لیے (مظلوم اقوام)ایک مشعل راہ ہے۔

نادیہ بلوچ نے کہا کہ ایمان، آپ اُس روشنی کا نام ہیں جو ان اندھیری راہوں میں ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے، کوئی ہے جو سنتا ہے۔ آپ کیساتھ کام کر کے مجھے اپنے پیشے سے محبت ہونے لگی ہے، کیونکہ آپ نے وکالت کو محض پیشہ نہیں، ایک عبادت بنا دیا ہے۔ آپ میں میں نے وہ جنون دیکھا ہے جو صرف اُنہیں نصیب ہوتا ہے جو اپنی ذات سے آگے دیکھتے ہیں۔

Share This Article