مزاحمت کی تاریخ پڑھنے سے کچھ ایسے کردار سامنے آتے ہیں جو داعی اجل کو لبیک کہنے کے بعد زندہ رہتے ہیں۔ قوموں کی مزاحمتی تاریخ میں یہ وہی کردار ہوتے ہیں جو جسمانی طور پرتو باقی نہیں، مگر ان کے افکار، ان کی قربانیاں اور ان کی جدوجہد نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ایسے کردار کبھی وقت کی گرد میں چھپتے ہیں، اسی لیے ان کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ہاں بھی ایک علم سے لیس سپاہی، آزادی کے سفر میں قربان ہوا۔ وہ ایک ایسا ہی کردار تھا جسے عمل کا پیکر کہاجاتاتھا۔ وہ جو علم اور اپنے عمل سے اپنی قوم کو بیدار کرنا چاہتا تھا، جو غلامی کے اندھیروں میں شعور کی شمعیں روشن کر رہا تھا، جو سوال کرنے، سوچنے، اور خود کو انقلابی سانچے میں بدلنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اپنے اس تاریخی کردار کی وجہ سے وہ دشمن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔
علم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی طاقت کبھی ماپنا کبھی ممکن ہی نہیں ہوا اور جب علم آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جڑ جائے تو وہ بیان سے بالا تر طاقت کا روپ اختیار کرجاتا ہے۔ ایسی طاقت سے سامراجی قوتیں اور ظالم نظام کے ایوان لرزنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں ہوتا، بلکہ آج تک اس کا توڑ دریافت ہی نہیں ہوا۔
ہمارا امجد بشام جسے میں رودین کے نام سے جانتا تھا اور بعض دوست اسے شمس کہ کر پکارتے تھے۔ رود (ندی) کو کہتے ہیں، شمس تو اپنی روشنی پھیلانے میں کبھی بخل سے کام ہی نہیں لیتا۔ وہ رواں ندی بھی تھا جس کے میٹھے پانی سے لوگ اپنی پیاس بجھاتے تھے اور نور کا پیکر بھی۔
میں نے پہلی مرتبہ ۲۰۱۵ میں انہیں کولواہ میں ایک تربیتی پروگرام کے دوران دیکھا، وہیں اس کی علمی صلاحیت کا پرستار بن گیا۔ اس کی یہی علمی صلاحیت دیکھ کر مجھے کامل یقیں ہوگیا کہ رودین کا علم سطحی نہیں بلکہ اس نے سیاست، تاریخ، سماجیات اور فلسفہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ یہ اس کے علم کہ گہرائی تھی جس نے انہیں تاریخ کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے میں معاونت کی تھی۔ اسی لیے وہ اپنے اس علم کو لامحدود کرنے کا تہیہ کرلیا تھا اور اسے پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کیوں کہ اسے کامل یقین تھا کہ علم ہی معاشرے میں شعور کو پروان چڑھاسکتا ہے۔ وسیع علم اور عالمی زبان انگریزی پہ مکمل دسترس رکھنے کے باجود امجد بشام نے تعلیم کو اپنی ذات یعنی روزگار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اسے انقلابی پیمانے پہ یعنی اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اسے اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ اس علم کو عمل سے جوڑنے کے بعد جو روشنی پھیلے گی اس کے ثمرات مقصد کے حصول کی صورت میں سامنے آئیں گے۔
اس پروگرام کے بعد امجد بشام سے حال احوال کا سلسلہ قائم رہا، اس دوران جب بھی وہ بات کرتا تو نت نئے آئیڈیاز کی بات کرتا۔ امجد بشام کے ساتھ اس کے ساتھی شہید سلیمان جان جو ان دنوں بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کیچ ریجن کا صدر تھا، ان سے بھی بات چیت ہوتی تھی اور وہ بھی امجد بشام کی نہ صرف علمی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتا، بلکہ عملی کام میں اس کے متحرک انداز کا بھی دلدادہ تھا اور اکثر وہ اسے مستقبل کے رہنما کے طور پر بیان کرتا تھا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے سیکرٹری جنرل دل مراد بلوچ نے اپنے مضمون ’’دی پرفیسر‘‘ میں امجد بشام کی علمی، سیاسی و عملی بصیرت کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’آج جب ہم انہیں (امجبد بشام کو) الوداع کہہ رہے ہیں تو ایک استاد، ایک رہنما، ایک سپاہی۔۔۔ تینوں کی شبیہ ایک ساتھ ہم سے دور جارہی ہے، بس ایک نام، یاد رہ جاتی ہے، ایک پہچان باقی رہ جاتی ہے۔ ’’دی پروفیسر‘‘
اس سے ہم اس کی علمی بصیرت کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ کس مقام پہ تھا۔ علم اور عمل کے جڑنے سے روشنی پھیلتی ہے، اس نے ثابت بھی کیا۔ جب وہ سامراج کے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوتا ہے اور لگ بھگ ڈیرھ سال تک وہ بدنامِ زمانہ اذیت گاہوں میں، جن کا نام سنتے ہوئے بھی روح تک کانپ اٹھتی ہے لیکن وہ بہتی ندی کی مانند تھا، وہ شمس تھا، بھلا بہتی ندیوں کو کوئی روک سکا ہے، یا کبھی سورج کی روشنی مدہم ہوئی ہے۔۔۔ یقیناً نہیں۔۔۔ تو پھر امجد بشام کیسے کمزور پڑسکتا تھا۔ جونہی وہ ان اذیت گاہوں سے آزاد ہوتا ہے پھر سے مستوں کی طرح آزادی کے سفر میں مصروف رہتا ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد دشمن کو یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ امجد بشام اب بھی اسی کارواں کا مسافر ہے لہذا وہ رودین جان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رودین جان بھی ان کے ارادے بھانپ لیتا ہے اسی لیے اس نے شہری زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے بالاچ کے قلعوں کا رخ کیا۔
اس دوران چند ایک مرتبہ امجد بشام سے بات چیت بھی ہوئی۔ اس کے ساتھ ہونے والی گفگتو کے بعد بھی، میں نے اسی امجد کو پایا جسے میں نے کولواہ میں دیکھا تھا۔ وہ کامل تھا، یقیناً کامل تھا کہ آتشِ نمرود میں گزرنے کے بعد بھی اس میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔
مجھے یقین ہے کہ وہ ازاں بعد بھی فارغ اوقات میں علم کے حصول اور علم پھیلانے میں مصروف رہا ہوگا کہ اس کی سرشت ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ بنا کتب رہ ہی نہیں سکتا اور کتابوں کے حاصلات کو پھلائے بغیر اسے چین بھی نہیں آتا۔ جیسے میں نے بالا سطور میں رقم کیا کہ اس کا علم گہرا تھا لہذا وہ کسی اور کو بھی فقط کتابیں رٹوانے کا قائل نہیں تھا بلکہ وہ اپنی عادت کے مطابق علمی مباحثوں میں اپنے دوستوں کے دلوں میں سقراطی نظریہ (سوالات) جگاتا، انہیں سچائی تلاش کرنے پر ابھارتا۔ وہ بتاتا بھی اور اپنے عمل سے ثابت بھی کرتا کہ علم کا اصل مقصد غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہے۔ اسی لیے اس کے تحاریر اور گفتگو ہمیشہ اسی سوچ کے عکاسی کررہے ہوتے۔ وہ جانتا تھا کہ علم اور عمل کا جوڑ سامراج کے ایوانوں کو زمین بوس کرنے کا کلیدی ذریعہ ہے۔
آہ! امجد جان تجھے اس بات کا ادراک تھا اور تم ہمیشہ یہ ثابت بھی کرتے تھے کہ انسان محض جسمانی آزادی پہ اکتفا نہ کرے، بلکہ اس کا محور فکری آزادی کا حصول ہو۔ جو ذہنی غلامی کے خاتمے کا سب سے موثر ہتھیار ہوتا ہے۔ اور اسی ہتھیار کو کار آمد بنانے کے لیے وہ ہمہ وقت جہد کرتا تھا۔
وہ جب لب کھولتا تو اس کے الفاظ کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتے۔ یہ دراصل تحریک آزادی سے اس کی شعوری وابستگی تھی اسی لیے اس کا ہر لفظ خود میں گہرا معنی رکھتا تھا۔ یہ اس کا شعور ہی تھا جس کی وجہ سے اس کی باتیں منطق کی بنیاد پہ ہوتے تھے۔ یقیناً اس کے لیے وہ پڑھتا، پرکھتا، سمجھتا، ازاں بعد محفل میں اپنی بات رکھتا۔
اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ قوم کا ہر فرد شعور یافتہ ہو، اپنے حقوق سے باخبر ہو اور اپنی آزادی کی قیمت کو سمجھے۔ اس بیداری کے لیے وہ علم کو ہی سب سے بہترین ذریعہ سمجھتاتھا۔
قوموں کی مزاحمتی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ استعماری طاقتیں ایسے نوجوانوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے رہے ہیں یہاں بھی یہی ہوا امجد جان بھی قبضہ گیر کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا۔ جس کے بعد اسے قید و بند کی صعووبتیں بھی برداشت کرنے پڑیں لیکن مجال کے اس کے نظریے اور فکر میں ذرہ برابر کمی آئی بلکہ وہ فرعونِ وقت کے قید خانوں سے آزاد ہونے بعد مزید متحرک کردار ادا کرتا رہا۔ اس کا نظریہ پختہ تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی دینا ہی اصل کامیابی ہے اور پھر وہ اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب چل پڑا۔
آخر کار، وہ دن بھی آگیا جب دشمن نے ہمارے رودین کو کیچ کی گلیوں میں قتل کردیا گوکہ اسے راستے سے ہٹا دیا گیا، اسے مار دیا گیا لیکن وہ جسمانی طور پر ختم ہو کر بھی فکری طور پر زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور یہی رودین کی جیت ہے، جہاں وہ سدا ستارہ بن کر چمکتا رہے گا۔
٭٭٭