اسرائیلی فوج نے غزہ کے کئی علاقوں پر قبضے اور حماس کو ’شکست دینے کے لیے‘ ایک وسیع آپریشن کا اعلان کیا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
دوسری جانب حماس نے 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے کچھ قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویزدے دی ہے ۔
ایکس پر اسرائیلی دفاعی فورسز نے عبرانی زبان میں پیغام دیا کہ اس نے غزہ کے پٹی کے سٹریٹیجک علاقوں پر قبضے کے لیے فوجی دستے فعال کیے ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام سول ڈیفنس اور وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات سے اسرائیلی حملوں میں قریب 250 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے دو ماہ کے سیزفائر کے خاتمہ کے بعد مارچ سے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل روک رکھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ غزہ میں کئی لوگ بھوکے پیاسے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا آپریشن اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک حماس کا خطرہ نہ ٹل جائے اور تمام یرغمالی واپس نہ آجائیں۔ اس نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں دہشتگردی کے 150 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے۔ اس نے سرحد کے قریب فوجی دستوں کو الرٹ کیا ہے۔ آپریشن کے اعلان سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ جنگ بندی اور مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
اخبار ٹائمز آف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے تحت اسرائیلی فوج غزہ کے کئی علاقوں پر قبضہ کرے گی، عام شہریوں کو جنوبی غزہ منتقل کیا جائے گا، حماس پر حملے کیے جائیں گے اور حماس کی جانب سے امدادی سامان پر قبضے کو روکا جائے گا۔
رواں ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں کئی علاقوں پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ آپریشن ٹرمپ کا دورۂ مشرق وسطیٰ مکمل ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ جمعے کو ہی یہ دورہ مکمل کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق کے چیف وولکر ٹرک نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے تناؤ میں حالیہ اضافے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس صورتحال پر تشویش ہے۔
پیر کو اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ غزہ کی آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں خوراک کی کمی کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں فوجی مہم شروع کی تھی۔ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 57 افراد اب بھی اس کی تحویل میں ہیں۔
حماس نے نئے مجوزہ غزہ امن معاہدے کے تحت 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے مزید قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ایک فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حماس 60 روزہ جنگ بندی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے نو یرغمالیوں کو چھوڑنے کے لیے راضی ہے۔
عہدیدار کے مطابق، اس نئے معاہدے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 400 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے جبکہ مریضوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے دیا جائے گا۔ بدلے میں اسرائیل نے قیدیوں کے زندہ ہونے کے ثبوت اور ان کے متعلق تمام تر تفصیلات مانگی ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے نئے مذاکرات کا دور امریکی اور قطری حکام کی ثالثی میں سنیچر کو دوحہ میں شروع ہوا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے تاحال اس نئے مجوزہ معاہدے پر تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم مذاکرات کے آغاز سے قبل اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ نہ تو غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا اور نہ جنگ ختم کرنے کی یقین دہانی کروائے گا۔
یاد رہے کہ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے کئی علاقوں پر قبضے اور حماس کو ’شکست دینے کے لیے‘ ایک وسیع آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس وقت تک کارروائیاں بند نہیں کریں گے جب تک کہ حماس ان کے لیے خطرہ نہ رہے اور ہمارے تمام یرغمالی گھروں کو واپس نہ آ جائیں۔‘
سنیچر کے روز اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں 150 سے زائد دہشت گرد اہداف پر حملہ کیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائیاں بڑھانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور مستقل سیز فائر کا مطالبہ کیا۔
انتونیو گوتیرس نے عرب لیگ کے لیے عراق کے شہر بغداد میں جمع رہنماؤں سے کہا کہ ’مجھے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائیاں بڑھانے کے منصوبے پر تشویش ہے۔‘
دوسری جانب ایکس پر اپنے پیغام میں بھی انتونیو گوتیرس نے لکھا کہ ’میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اقوام متحدہ کسی ایسے آپریشن میں حصہ نہیں لے گا جو بین الاقوامی قانون اور جانبداری کی پاسداری نہ کرتا۔‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے غزہ کے لوگوں کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرنے کا اعادہ بھی کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں غزہ سے کسی بھی جبری نقل مکانی کو مسترد کرتا ہوں۔‘