اُسے بغلگیر ہونے کا انتظار تھا اس بھائی سے جس بھائی کو ماں بولی اور دیس سے محبت تھی۔
وہ اس بھائی کے بدن کی خوشبو کرنا چاہتا تھا جس کا لمس اسے کیے کئی سال گزر گئی تھے۔
وہ اس بھائی کے گال چومنا چاہتا تھا جس بھائی کو دیکھے بقول لطیف“ڈیھنڑا تھا!“
وہ اس بھائی کے لیے تو ابھی رویا بھی نہیں تھا جس بھائی کو اس نے اپنے کاندھو پر اُٹھایا تھا۔
اس کا دل کہتا تھا کہ وہ ضرور آئے گا اور وہ اسے بہت تنگ کرے گا اور اس سے پوچھے کا کہ
محبوبہ کی محبت اچھی یا دیس کی گلیوں کی؟!“
وہ ہر آنے والی عید پر اپنے بھائی کے کپڑے سلواتا اور پھر بہت روتا۔
اس بار بھی بھائی کے کپڑے شال میں سل رہے تھے۔
اور وہ نال میں رو رہا تھا۔۔۔۔۔
اس کے ہونٹ ترس رہے تھے اس محبوب بھائی کے ہاتھ چومنے کے لیے جس بھائی کو ہاتھ سے پکڑ کر وہ اسکول جاتا تھا۔
ہاتھوں کا چھوٹ جانا بھی کیا درد ہے۔
وہ ہاتھ نہیں جان پائیں گے جو پالتو بلیوں کو گود میں اُٹھا کر گھومتے ہیں۔
ہاتھوں کے چھوٹ جانے کا درد وہی ہاتھ جان پائیں گے جن کے محبوب ترین ہاتھ چھوٹ گئے ہوں!
اس کے کان اس آہٹ کو سننا چاہتے تھے جس آہٹ میں محبوبہ کی سرگوشیاں ہو تی ہیں۔
اس سے پہلے وہ گوش!سُپرِ خاک ہوئے۔۔۔۔
محبت میں مل جانا نعمت ہے۔
اور محبت میں دور ہوجانا بہت بُری اذیت۔
وہ محبت کی بہت بُری اذیت سے گزر رہا تھا۔
کیا ہم نے اپنے ہاتھوں اور اپنی آنکھوں سے طلوع ہو تے سورج اور ڈوبتے سورج گنے ہیں؟
وہ ہر روز نال کی گلیوں میں طلوع ہوتے سورج اور ڈوبتے سورج گنتا تھا۔
ہاتھوں پر
ہاتھوں کی انگلیوں پر۔۔۔۔
نہیں معلوم کتنے سورج طلوع ہوئے۔
نہیں معلوم کتنے سورج ڈوب گئے۔
آج وہ دل بھی نال کی گلیوں میں ڈوب گیا۔
وہ تمام صبحیں
وہ تمام شامیں۔۔۔
وہیں رہ گئیں جو اس پر طلوع ہو تیں اور اس پر ڈوب جاتیں ۔
ہم جانتے ہیں محبت کا کوئی مداواہ نہیں۔
پر کاش ہم یہ بھی جان پا تے کہ گمشدہ محبت کا کوئی مداوہ نہیں۔
وہ گمشدہ محبت کا مداوہ کر رہا تھا جس محبت کا بس یہ جرم تھا کہ اسے دیس سے محبت تھی۔دیس بولی سے محبت تھی۔ماں سے محبت تھی۔محبوبہ کی بولی سے محبت تھی۔
جب سب کچھ خاک آلود ہوتا ہے تو پیچھے کیا بجتا ہے۔
اس درد کو یا تو سسئی جھیل سکتی ہے
یا صوفی
یا لاہوتی
یا ماں
پر آج شاید اس درد کو ماں بھی نہ جھیل سکے۔
ماں کے ہاتھ خالی ہیں اب اگر دیس نے کچھ مانگا تو سوائے دل اور درد کے اس ماں کے پاس کچھ نہیں۔
پر پھر بھی جب رات کے آخری پھروں میں دیس تتلی کا روپ دھار کر اس ماں سے کچھ مانگنے آئے تو ماں خالی دامن اس دیس جیسے تتلی کو کہہ سکے کہ
”مٹ خالی پر مون،اکھیون ھن کھے ڈنیون
ھک پوپٹ ادھ رات جو،جڈھن پانی پئین آیو!“
”مٹکا خالی تھا پر میں نے اپنے آنکھیں اسے دیں،جب ایک تتلی رات کو پانی پینے آئی!“
ماؤں کا دامن کبھی خالی نہیں ہوتا جب کچھ بھی نہیں ہوتا جب بھی ماؤں کی جھولیاں سُرخ پھولوں سے بھری رہتی ہیں۔
اس کے کان اس بھائی کی آواز سننا چاہتے تھے جس بھائی سے وہ صبح لڑتا اور شام کو محبت کرتا۔
وہ اس کا بھائی نہ تھا۔وہ اس کے لیے وطن تھا۔
وہ کئی سالوں سے وطن میں بے وطن تھا۔
وہ صبح اداس تھا وہ شام اداس تھا۔
وہ اس بھائی کو اتنے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا جیسے عاشق اپنی محبوباؤں کو دیکھتے ہیں۔
وہ منتظر آنکھیں انتظار کی کیفیت میں ہی رہیں ۔
کاش ہم جان پا تے کہ آنکھوں کی انتظاری کیا ہو تی ہے؟
اگر وہ منتظر انتظاری صلیب پر ہو تی تو پھر بھی ٹھیک تھا۔
پر اب ایسا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ آنکھیں نال کی مٹی میں ایسے اتر گئیں جیسے محبت من میں اتر جا تی ہے۔
پر محبت میں ملال کیوں ہوتا ہے؟
محبت میں درد کیوں ہوتا ہے؟
محبت میں نوحہ کیوں ہوتا ہے؟
محبت میں انتظار کیوں ہوتا ہے۔
محبت میں رات کیوں ہو تی ہے؟
محبت میں صبح کیوں نہیں ہو تی؟
محبت میں شام کیوں نہیں ہو تی؟
محبت میں ماک(شبنم)کیوں نہیں ہو تی؟
محبت میں دردیلی بارش کیوں ہو تی ہے؟
جو درد کو دھو تی نہیں۔درد کو کم نہیں کرتی؟ماتھے کے اشکوں کو کم نہیں کرتی۔دل کے گداز کو ختم نہیں کرتی پر دل ودامن میں ایسی آگ لگا تی ہے کہ سب کچھ جل جاتا ہے۔
پلو بھی،دامن بھی،دل بھی،دیس بھی،تن بھی،من بھی،میں بھی،تو بھی،وہ بھی،یہ بھی،ماں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آگ نے پہلے ماں کو جلایا،پھر اس بھائی کو بھی جو آج جا تے جا تے نال میں ایسے ہے جس کے لیے لطیف نے لکھا تھا کہ
”جنھن بھون متھے پیر
ان بھون ھیٹ سجناں!“
”جس زمیں کے اُپر میرے پیر ہیں
اس زمیں کے نیچے میرا محبوب ہے!“
اس ماں کے لیے کوئی پرسہ نہیں جس ماں نے دیس کے لیے بیٹے جنے اور اب دیس کے حوالے اپنے بیٹے کر رہی ہے۔پر افسوس اس بات پر ضرور ہے کہ ماں کی اب جھولی خالی ہے اب اگر دیس نے کچھ مانگا تو ماں دیس کو کیا دیگی؟
آنکھیں پہلے دے چکی ہے۔
دل آج دیا ہے۔
اور درد کو اپنے دامن گیر کر کے ایسے نال کی گلیوں میں گھومتی ہے، جیسے سسئی کیچ کے پہاڑوں میں گھوما کرتی تھی۔
٭٭٭