بلوچستان کے ضلع پنجگور میں جبری لاپتہ جمیل احمد بلوچ اور نصیب اللہ کی فیملیز نے پریس کلب میں الگ الگ پریس کانفرنسز کئے اور اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کیخلاف سی پیک شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کےلئے بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
عیسئ سندے سر کے رہائشی حاجی صالح محمد ،حاجی کریم جان ،حاجی فدااحمد، حاجی محمد یونس، ثناء اللہ، الہی بخش نے اپنے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ پنجگور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمیل احمد ولد محمد علی جو 9 دسمبر 2024 کو نامعلوم بلیک سرف سواروں کے ہاتھوں گھر کے سامنےسے اغوا ہوا تھا تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے جسکی وجہ سے ہمارا پورا فیملی شدید کرب اور ذہنی اذیتوں سے گزررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمیل کی رہائی کے لیے اغوا کاروں نے جمیل احمد کے ذاتی نمبر سے فون کرکے ہم سے تاوان مانگا تھا اور ہم نے باقاعدہ اسکی اطلاع بھی پولیس کے ذمہ داروں کو دی ہے مگر وہ مکمل بے بسی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جمیل احمد کو بازیاب کرنے کی ذمہ داری پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی ہے انہیں چائیے تھا کہ وہ اس کیس پر سنجیدہ اقدامات کرتے مگر انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، وہ پر آسائش کمروں میں بیٹھ کر خود کو اس واقعہ سے الگ تلگ کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بحالت مجبوری سڑکوں پر آکر احتجاج کرسکتے ہیں اور ہم اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہیں کہ وہ جمیل احمد کو بازیاب کرائیں بصورت دیگر پیر کے شام ھم سی پیک پر دھرنا دے کر روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کردینگے ۔
انھوں نے کہا جو ثبوت ہمارے ہاتھ آئے تھے ہم نے وہ بھی پولیس سربراہ سے شئیر کیئے ہیں کچھ ذمہ داریاں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی بھی ہیں کیونکہ انہیں یہاں عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے بیٹھایا گیا ہے۔ جمیل احمد بھی اس ملک کا ایک شہری ہے جسے اغوا کرکے اسکے پورے فیمیی کو کرب اور پریشانیوں میں ڈالا گیا ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان چیف جسٹس اف بلوچستان آئی جی پولیس چیف سکریٹری بلوچستان ڈی آئی جی مکران کمشنر مکران جمیل احمد کے کیس کا سختی کے ساتھ نوٹس لیں اور اسکی بازیابی کے لیے کردار ادا کریں۔
اسی طرح پنجگور کے علاقے گچک حال سریکوران کے رہائشی عبدالحکیم نے صوفی محمد عظیم، قاضی عبد الواحد، شے جان، حاجی عبد الوحید، واجہ جمعہ، شریف احمد،حافظ شمس الدین ،سرور بلوچ نے اپنے دیگر رشتے داروں اور علاقائی معتبرین کے ہمراہ پنجگور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پنجگور کے علاقے سریکوران وش آپ میں رہائش پذیر ہیں۔ 26 فروری کو دو گاڑیوں پر سوار سادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد نے میرے گھر میں گھس کر تھوڑ پھوڑ اور فائرنگ کرکے نصیب اللہ کے بارے میں دریافت کیا اور میرے چھوٹے بیٹے کو گاڑی میں بٹھا کر قریبی کھجور کے باغ لے گئے،بعد ازاں مسلح افراد وہاں سے نصیب اللہ کو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ جھوٹے بیٹے کو چھوڑ دیا۔
نصیب اللہ جو کہ طالب علم ہے ابھی تک اس کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا، اس کی عمر 16 سال ہے۔
انہوں نے کہا کہ نصیب اللہ کو لے جانے والے ہمارے گھر سے ڈیڑھ لاکھ روپے بھی لے گئے، خواتین اور بچوں کی مداخلت پر فائرنگ کرکے اسلحہ کے زور پر نصیب اللہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تاحال معلوم نہیں کہ کون ہمارے کمسن بچے کو لے گیا ہے، ہم سخت پریشانی سے دو چار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پنجگور، میر و معتبر ین سے رابطے اور التجا بھی کی مگر تاحال اس حوالے سے کسی قسم کی شنوائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے بچے نے کوئی جرم کیا ہے تو ہمیں آگاہ کیا جائے، ہم ہر قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں اگر جرم نہیں کیا تو باریاب کیا جائے کیونکہ رمضان المبارک کے مہینے میں ہم بہت پریشانی سے دو چار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے بچے کو دو دن کے اندر اندر بازیاب نہ کیا گیا تو احتجاجاً سی پیک روڈ کو بلاک کرینگے۔
انہوں نے ڈپٹی کمشنر پنجگور اور تمام اداروں سے اپیل کی ہے کہ نصیب اللہ کی بازیابی کے لیے اقدامات کریں بصورت دیگر بچوں اور خواتین کے ساتھ سی پیک روڈ پر دھرنا دے کر احتجاج کرینگے۔