ماما چاکر اور ایک یادگار ملاقات | گُل شیر منیر

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

دو دن کے سفر کے لیے جب ہم روانہ ہوئے، تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہماری ملاقات ایک درویش صفت اور دلیر جوان، ماما چاکر سے ہوگی۔ جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اسی پہاڑی سلسلے میں تین گھنٹے کا پیدل سفر طے کر رہا تھا اور ماما کے اوتاک کی جانب بڑھ رہا تھا، تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ماما پہلے ہی ہمارے استقبال کے لیے تیار ہوگا۔ اوتاک سے دس منٹ کے فاصلے پر ماما نے دوربین کے ذریعے ہمیں دیکھ لیا تھا اور ہمارے انتظار میں پہاڑوں کے نیچے کھڑا تھا۔

جب ہم ماما کے پاس پہنچے، تو وہ بے صبری کے عالم میں ہم سے بغل گیر ہوا، جیسے وہ ہمیں برسوں سے جانتا ہو۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک خاص اپنائیت تھی۔ وہ کہنے لگا، میں تھوڑا اور آگے آنا چاہتا تھا تاکہ اس تین گھنٹے کے پیدل سفر میں کم از کم ایک گھنٹہ آپ لوگوں کے ساتھ گزار سکوں۔ تین گھنٹے تو آپ لوگ بغیر رُکے مسلسل سفر کرتے رہے، اور اگر میں درمیان میں ہوتا تو کچھ باتیں ضرور ہو سکتیں، لیکن وقت نے کچھ اور فیصلہ کیا۔ بہرحال، شکر ہے کہ آپ لوگ صحیح سلامت اوتاک پہنچ گئے۔

یہ سفر نہ صرف جسمانی مشقت کا ایک امتحان تھا، بلکہ اس نے ہمیں فطرت، اتحاد اور جدوجہد کی اصل روح سے روشناس کرایا۔

یہ سفر کسی عام مسافت کی طرح نہیں تھا، بلکہ یہ پہاڑوں کے سینے میں چھپی ایک داستان کی مانند تھا، جہاں ہر قدم احتیاط اور ہوشیاری کا متقاضی تھا۔ ہم ہر لمحہ اردگرد کے ماحول پر نظر رکھ رہے تھے کہ کہیں دشمن کی کمین گاہ نہ ہو، کہیں کوئی مشکوک حرکت تو نہیں۔ ہوا میں بسی جنگل کی نمی اور چٹانوں کی خاموشی ایک عجیب سنسنی پیدا کر رہی تھی، جیسے قدرت خود بھی اس سفر کی گواہ ہو۔ راستے میں بکھری ہوئی ریت اور ڈھیلے پتھر ہمیں محتاط چلنے پر مجبور کر رہے تھے تاکہ کسی غیر ضروری آواز سے ہماری موجودگی ظاہر نہ ہو۔ رات کے وقت چاندنی اور ستاروں کی روشنی ہمارا سہارا تھی، جبکہ دن میں سائے اور غاروں میں رک کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اپنائی جاتی تھی۔ یہ گوریلا سفر نہ صرف جسمانی برداشت کا امتحان تھا بلکہ ذہنی مضبوطی اور جنگی مہارتوں کا بھی ایک عملی مظاہرہ تھا۔

جب ہم ماما چاکر کے اوتاک پہنچے اور اس سے گفتگو کا آغاز ہوا، تو یوں لگا جیسے ہم کسی پہاڑی مقام پر نہیں، بلکہ اپنے ہی آنگن میں بیٹھے ہوں۔ اس کی گفتگو میں ایسا خلوص اور محبت تھی کہ لمحہ بھر کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہمارے سامنے ہمارا کوئی دیرینہ دوست بیٹھا ہو، جس کے ساتھ بیتے لمحات کی یادیں تازہ ہو رہی ہوں۔

شہید نصر اللہ عرف چاکر کی سادگی، مہمان نوازی اور پرخلوص مسکراہٹ نے دل پر ایک ایسی گہری چھاپ چھوڑی جو شاید زندگی بھر نہ مٹ سکے۔ اس کی باتوں میں نہ صرف حکمت اور تجربے کی جھلک تھی بلکہ دلیرانہ وقار بھی موجود تھا، جو پہاڑوں میں رہنے والے بہادر سرمچاروں کی پہچان ہوتا ہے۔

ماما چاکر کی ایک اور قابلِ تحسین عادت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اتحاد اور درست سمت کی جانب توجہ دلاتا تھا۔ جب بھی کسی اہم معاملے پر بات ہوتی، تو وہ ہمیں تلقین کرتا کہ ہمیں صرف اپنی ضروریات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس نے ایک موقع پر ہم سے کہا، اگر کسی ضروری چیز کی اشد ضرورت ہو، تو ایک کے بجائے دو لے آنا، تاکہ اگر ہمارے کسی دوسرے تنظیمی ساتھی کو ضرورت پیش آئے، تو وہ بھی مستفید ہوسکے۔

یہ سوچ نہ صرف ایثار اور قربانی کی علامت تھی بلکہ اجتماعی فلاح اور اتحاد کی بھی بہترین مثال تھی۔ ماما چاکر کی باتوں میں ہمیشہ دور اندیشی اور اجتماعی سوچ کی جھلک ہوتی تھی، جو ایک سچے کامریڈ کی پہچان ہے۔

یہ ملاقات محض ایک اتفاق نہیں تھی، بلکہ یہ ایک تحریک اور جدوجہد کی کہانی تھی، جہاں وفاداری، قربانی اور اجتماعیت کا سبق ملا۔ ماما چاکر کی شخصیت ایک ایسی روشنی کی مانند تھی، جو نہ صرف اپنے قریبی ساتھیوں کو راہ دکھا رہی تھی بلکہ ہر اس شخص کے لیے ایک مثالی کردار تھی جو آزادی، جدوجہد اور اتحاد پر یقین رکھتا ہے۔

یہ سفر اور یہ ملاقات ایک یادگار لمحہ بن کر ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو گئی، جہاں پہاڑوں کی گونجتی آوازیں، سرمچاروں کی ہمت، اور ماما چاکر کی رفاقت ہمیشہ زندہ رہے گی۔

٭٭٭

Share This Article