بلوچستان کے مستونگ کے علاقے کردگاپ میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں کے جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کے لواحقین ان کی بازیابی کے لئے گذشتہ 9 دنوں سے مین شاہراہ بلاک کرکے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔
ابھی ابھی اطلاعات سامنے آئی ہیں ڈپٹی کمشنر مستونگ زوہیب اللہ کبزئی کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کی مذاکراتی ٹیم نے کردگاپ میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور مظاہرین کے پاس جاکر مزاک کیے جو نتیجہ خیز ثابت ہوئے جس کے بعد اتفاق سے مظاہرین نے شاہراہ کھول کر دھرنا موخر کرنے کا اعلان کردیا۔
مذکورہ مقام پر قومی شاہراہ گزشتہ 9 دنوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ اور عام مظاہرین بند کردیا تھا جس کی وجہ سے شاہراہ کے دونوں اطراف کثیر تعداد میں گاڑیاں پھنس گئی تھیں۔
انتظامیہ کی مذاکراتی ٹیم میں اسسٹنٹ کمشنر مستونگ محمداکرم حریفال، اسسٹنٹ کمشنر کردگاپ سردار عبداللہ اچکزئی، اسسٹنٹ کمشنر دشت سمیت دیگر اعلی حکام شامل تھے۔
مذاکرات میں مظاہرین نے 10 لاپتہ افراد کی فہرست دیدی جس میں شاہنواز ولد نور بخش (4-4-2024)،زاکر ولد محمد یوسف (30-8-2021)،راشد ولد محمد یوسف (18-12-2021)،جاوید شمس ولد شمس الحق (31-8-2021)،عبدلمالک ولد عبدالخالق (25-08-2011)،جمیل احمد ولد عبدلالغنی (25-7-2015)،میر تاج محمد ولد میر عبدلراحمان (19-7-2020)،غلام فاروق سرپرہ ولد عبد لرسول (26/6/2015)،ظہور احمد سرپرہ ولد علی گل (جولائی 2021) اور سجاد احمد سرپرہ ولد علی احمد (جولائی 2021) شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان یہ طے پایا کہ کسی بھی مسنگ پرسن کو فیک انکاؤنٹر میں نہیں مارا جائے گا۔4 لڑکوں کو (15) پندرہ دن کے اندر بازیاب کرایا جائے گا۔دیگر کی بازیابی کے لیے ایک ماہ کی مہلت طے کی جاتی ہے۔ کسی بھی علاقہ مکینوں کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
دونوں فریقین مابین مذاکرات کا ضامن سردار محمد عاصم سرپرہ کو رکھا گیا اور شرائط نہ مانے جانے کی صورت میں یہ مان لیا گیا کہ لواحقین کو احتجاج کا حق حاصل ہوگا اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان پر کوئی تشدد نہیں کیا جاے گا۔
واضع رہے کہ آج دھرنے میں بی وائی سی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے شرکت کی خطاب کیا تھا۔