بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ٹارگٹ کلنگ میں حالیہ اضافے اور بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی، قلات اور کیچ کی تحصیل بلیدہ میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
خواتین، بچوں، بوڑھوں اور متاثرہ خاندانوں سمیت بڑی تعداد میں عوام نے احتجاج میں شرکت کی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف مزاحمت کے نعرے لگائے۔
کراچی میں پولیس نے ریلی کو سبوتاژ کرنے کے لیے پریس کلب کے پورے علاقے کو بھاری نفری کے ساتھ گھیرے میں لے لیا اور کنٹینرز سے سیل کردیا۔
دریں اثناء بلیدہ میں، نیم فوجی دستے (FC) نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور پرامن مظاہرین کو بشمول خواتین اور بچوں کو ان پر فائرنگ کرنے کی دھمکی دی۔
انہوں نے اس علاقے کو بھی سیل کر دیا جہاں احتجاج ہونا تھا۔
قلات میں انتظامیہ نے احتجاج شروع ہوتے ہی انٹرنیٹ بند کر دیا۔
ان تمام رکاوٹوں، دھمکیوں اور مسلسل ہراسانی کے باوجود لوگوں نے پرامن طریقے سے ریاستی تشدد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
جبری گمشدگیوں کا شکار ہونے والے خاندانوں نے اپنی حفاظت کے خوف سے اپنے پیاروں کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں جعلی مقابلے عام ہیں جہاں پہلے سے لاپتہ افراد کو پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کر دیتے ہیں۔
اس غیر انسانی تشدد سے پورے خاندان شدید صدمے کا شکار ہیں۔
بی وائی سی کے رہنما سمی دین بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ اور جعلی مقابلوں میں بلوچوں کے قتل کے خلاف آج کراچی پریس کلب میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو ایک بار پھر سندھ پولیس نے روک دیا۔ پولیس نے پریس کلب کو چاروں طرف سے سیل کر کے مظاہرین کو وہاں پہنچنے سے روک دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چوتھی بار ہے کہ جب بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاج کی کال دیتی ہے، سندھ پولیس پریس کلب کے راستے بند کر کے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب وہ جگہ ہے جہاں عوام اپنے مطالبات میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کے لیے جمع ہوتے ہیں، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچوں سے یہ بنیادی حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
سمی دین بلوچ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے دعوے کرنے والے بلاول بھٹو کیا اب سندھ میں بلوچوں کو اپنے حقوق کےلئے آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ؟