پسنی سے 11 افراد کی جبری گمشدگی تشویشناک ہے،پانک

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ سے کے انسانی حقوق کے ادارے پانک بلوچستان کے ساحلی شہر اور گوادرکے تحصیل پسنی سے 8 سے 10 فروری کے دوران پاکستانی فورسز ہاتھوں11 نوجوانوں کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ان 11 افراد کی گرفتاری بعد جبری لاپتہ کیا جانا علاقے میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا تسلسل ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ 8 فروری کو گوادر کے علاقے چکُلی کلانچ سے 2 بھائیوں نسیم اور وشدل ولد پٹھان کو جبری لاپتہ کیا گیا۔

پانک نے کہا کہ ان کی جبری گمشدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست نے سماجی سرگرمیوں میں متحرک عام لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جیسا کہ نسیم ولد پٹھان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ فیس بُک پر چکُلی موسم کے نام پیج چلا رہے تھے جو صرف موسمیات بارے معلومات دیتے تھے۔

پانک نے کہا کہ10 فروری کو پسنی کے وارڈ 3 ، وارڈ 5 اور وارڈ6 سے فورسز نے 9 دیگر افراد کو حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا۔ جن میں وارڈ 6 سے مقبول اکرم، سلیم رضا، نصیب سوالی، فیصل سوالی، ساجد سوالی، احمد رضا جبکہ وارڈ 5 سے علی بلوچ، اور وارڈ 3 سے صالح ریاض شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ زمان ولد پھلان کو فورسز نے وارڈ 1 کلانچ محلہ پسنی سے فورسز نے جبری لاپتہ کردیا جو کہ بنیادی طور پر پیدارک کا رہائشی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پانک ان غیر قانونی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے ان تمام جبری لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کی جبری گمشدگی میں ملوث اداروں سے باز پرس کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی سی سی پی آر پر دستخط کنندہ ریاست کی حیثیت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ہے۔

پانک نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ اور دیگر عالمی انسانی حقوق کے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بحران پر پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے تدارک کو یقینی بناہیں۔

Share This Article