بلوچوں کی جبری گم شدگیاں | ذوالفقار علی زلفی

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

جبری گم شدگی بلوچوں کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے ـ جبری گم شدگی کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے "جمہوری” دور میں ہوا ـ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل پہلے جبراً لاپتہ بلوچ ہیں ـ تاحال نہ وہ بازیاب ہوئے اور نہ ہی ان کی لاش ملی ـ۔

جبری گم شدگی کا بدترین دور البتہ 2008 ہے ـ اتفاق سے اس وقت بھی اسلام آباد اور کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ـ پی پی چیئرمین آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں "مارو اور پھینک دو” پالیسی بھی نافذ کی گئی جس کے تحت نہایت ہی بے رحمی سے بلوچوں کو جبراً گم شدہ کرکے ان کی لاشیں پھینکی گئیں ـ۔

پیپلز پارٹی کے اس دور سے لے کر تاحال جبری گم شدگی کی ریاستی پالیسی اپنی پوری شدت کے ساتھ نافذ ہے ـ شاید ہی کوئی ایسا بلوچ ہو جس کا کوئی عزیز، دوست یا ہمسایہ اس عذاب سے نہ گزرا ہو ـ اس پالیسی کے خلاف بلوچوں نے لانگ مارچز کئے، احتجاج کا راستہ اپنایا، پاکستانی عدالتوں میں گئے، عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا الغرض جو بھی ان کے بس میں تھا کیا مگر اس عفریت سے جان نہ چھڑا پائے۔
ـ
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں سراپا احتجاج بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بنیادی اہداف میں بھی اس مسئلے کا خاتمہ شامل ہے ـ اس ہدف کا حصول مگر جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے ـ۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے نمٹنے کے لئے جبری گم شدگی پنجابی نوآبادکار کا مہلک ترین ہتھیار ہے ـ اس ہتھیار کا نشانہ عموماً مزاحمتی سوچ کے حامل افراد بنتے ہیں جن کی اکثریت عموماً طلبا پر مشتمل ہوتی ہے ـ گوکہ اس ہتھیار کے ذریعے وہ تحریک کو روکنے میں ناکام نظر آتی ہے تاہم نوآبادیاتی پالیسی سازوں کا خیال ہے اس پالیسی کا مسلسل نفاذ خوف و دہشت کا ماحول بنا کر رکھے گا جس سے بلوچ سماج کو سیاسی لحاظ سے منجمد کیا جاسکتا ہے ـ۔

جنوری 25 کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ڈالبندن میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے فرمایا "ہم ہر لاپتہ بلوچ کی زندہ واپسی چاہتے ہیں” ـ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ذاتی لحاظ سے خود بھی اس عذاب کا سامنا کرچکی ہیں ـ ان کے والد عبدالغفار لانگو جبراً لاپتہ ہونے کے بعد مسخ لاش بن کر بازیاب ہوئے ـ اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دوسری اہم رہنما سمّی بلوچ بھی گزشتہ 14 سالوں سے اپنے جبراً لاپتہ والد ڈاکٹر دین محمد کی بحفاظت بازیابی کی منتظر ہیں ـ۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جب ڈالبندن میں اس پالیسی کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں اسی دوران تربت سے ایک نوجوان کی جبراً گم شدگی کی اطلاع آئی ـ اس سے اگلے دن گوادر سے مزید دو نوجوان جبراً لاپتہ کئے گئے ـ اس سے واضح ہے کہ پنجابی نوآبادکار کو عوامی احتجاج اور بے چینی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ایک متشدد روبوٹ کی طرح اس غیر انسانی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے ـ پاکستانی عدالتوں ، میڈیا اور نام نہاد اسمبلیوں کو بھی انسانیت کے خلاف جاری اس بدترین جرم سے کوئی علاقہ نہیں ہے ـ ۔

اس پس منظر سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ بلوچوں کی جبری گم شدگی کو روکنا فی الحال ناممکن ہے ـ کم از کم جب تک بلوچ قومی آزادی کی تحریک جاری ہے یہ پالیسی برقرار رہے گی ـ اس پالیسی کے خلاف اگر کوئی روک لگا سکتا ہے تو وہ مغرب ہے جہاں سے پنجابی معیشت کو امداد کی بیساکھیاں ملتی ہیں ـ مغربی سرمایہ داریت کے مفادات پنجابی نوآبادکار سے وابستہ ہیں جو مقامی سطح پر سرمایہ داریت کی چوکیداری کرتا ہے ـ اس تناظر میں انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی اداروں سمیت اقوام متحدہ جو درحقیقت مغربی سرمایہ داریت کی لونڈیاں ہیں سے بھی کسی قسم کی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔
ـ
ایک راستہ یہ ہے کہ ہر سیاسی نوجوان ہمیشہ مسلح رہے تاں کہ جب بھی اسے جبراً گم شدہ کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنے بچاؤ کے لئے مرنے مارنے کی کوشش کرے ـ یہ راستہ البتہ خاصا خطرناک بھی ہے اور شاید پرامن سیاسی کارکن کے مزاج سے بھی مطابقت نہیں رکھتا ـ یونیورسٹی کا طالب علم یا زندگی کے کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والا فرد اسلحہ لے کر نہیں گھوم سکتا ـ سو اس راستے پر جزوی عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔
ـ
دوسرا راستہ یہ ہے کہ بلوچ سماجی طور پر خود کو جنگ کی حالت میں ڈھال لے ـ کسی بھی فرد کی گرفتاری کے دوران اردگرد کے تمام افراد "قانون پسند شہری” بننے کی اداکاری چھوڑ کر اجتماعی مزاحمت کریں ـ درجن بھر ریاستی اہلکار بیک وقت سیکڑوں افراد کی مزاحمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ـ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جبری گم شدگی کا عمل بنا کسی مزاحمت کے مکمل ہوجاتا ہے ـ بلوچ نوجوانوں کو علم ہونا چاہیے کہ جبراً لاپتہ ہونے کے بعد پرتشدد قید اور بالآخر مسخ لاش بننا ہی ان کا مقدر ہوگا ـ ایسے میں بنا کسی مزاحمت کے گرفتار ہونا اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ دشمنی ہوگی ـ ۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب کراچی کے انکل سریا ہسپتال سے انہیں لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اغوا کاروں سے بھرپور مقابلہ کیا ـ متعدد کی ناک تک توڑ دی مگر بدقسمتی سے کوئی اور ان کی مدد کو نہ آیا ـ اگر مزید دس افراد شہید غفار لانگو کی مدد کرنے آجاتے تو آج وہ زندہ ہوتے ـ اسی طرح ڈاکٹر دین محمد نے بھی اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے اغوا ہونے سے انکار کیا، جس کی شہادت ان کے کمرے میں بکھرے سامان، ٹوٹی ہوئی کرسیوں اور الٹی ہوئی میز نے بھی دی ـ آدھی رات کو تنہا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کب تک لڑتے بالآخر جبراً لاپتہ ہوگئے ۔
ـ
جبری گم شدگی ایک اجتماعی مسئلہ ہے ـ اس کا حل فی الوقت نہیں ہے ـ مگر اجتماعی طور پر مزاحمت کرکے اس کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے ـ بلوچوں کو یکجا ہوکر لڑنا چاہیے ـ۔

مانتے ہیں مشین کی طرح کام کرنے والے نوآبادیاتی اہلکاروں سے نہتے افراد کا لڑنا خاصا مشکل عمل ہے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ـ بعض ایسے واقعات ہمارے علم میں ہیں جب عوام نے مزاحمت کرکے جبری گم شدگی کی کوشش ناکام بنائی ـ اس عمل کو قومی شعار بنانا ہوگا ـ ۔

لبرل تفکر کے حامل افراد کا وسیع سطح پر اتفاق ہے کہ پرامن سیاسی تحریکوں کے خلاف طاقت کا استعمال ریاستوں کے لئے مشکل ہوتا ہے ـ حقیقت یہ ہے کہ پرامن سیاسی کارکن ہی جبری گم شدگی کا شکار ہوتے ہیں ـ مسلح سرمچار کو گرفتار کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے ـ مسلح بلوچ کے سامنے پنجابی نوآبادکار عموماً بے بس نظر آتا ہے ـ اس لئے یہ محض گپ بازی ہے کہ پرامن سیاسی کارکن جبراً گم شدہ نہیں ہوسکتا ـ بلوچستان میں صرف نیشنل پارٹی برانڈ کے دوغلے قوم پرست ہی محفوظ ہیں، ان کے علاوہ ہر قوم پرست سیاسی کارکن خطرے کی سرحد پر کھڑا ہے ـ ۔

٭٭٭

Share This Article