بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ داکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کراچی کے علاقے لیاری میں بی وائی سی مظاہرین پرریاستی کریک ڈائون اور گرفتاریوں کیخلاف جاری اکردہ اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہاہے کہ ریاست پاکستان اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے سمی دین سمیت بلوچ خواتین کی چادر پر ہاتھ ڈال کر بلوچ غیرت اور ننگ پر حملہ کیا ہے۔ اس عمل کو نہ ہم فراموش کریں گے اور نہ ہی ریاست کو فراموش کرنے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سمی دین، لالا وہاب، فوزیہ بلوچ، باجی آمنہ سمیت ہمارے دیگر دوستوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد ریاست پاکستان کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پرامن مزاحمتی تحریک کے سامنے شکست کا واضح اعلان ہے۔ ریاست مکمل طور پر بوکھلاہٹ اور حواس باختگی کا شکار ہو چکی ہے۔
انہوںنے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بہت جلد اس جابرانہ نظام کے خلاف اپنے آئندہ لائحۂ عمل کا اعلان کرے گی۔
اپنے بیان میں انہوں نے کراچی کے عوام سے مخاطب ہوکر کہا کہ پر امن احتجاج کے دوران سمی دین بلوچ کی چادر کھینچ کر وہ بے حرمتی کی گئی جس کو ہمیں کھبی نہیں بھولنا چاہیے۔یہ عمل پہلی بار نہیں بلکہ باربار ہورہا ہے ، جب بھی کراچی میں بی وائی سی کی جانب سے کوئی مظاہرہ کیا جاتا ہے یا کوئی سیمینار کیاجاتا ہے توپریس کلب کو سیل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سمی دین کی چادر پر نہیں بلکہ بلوچ قوم کی غیرت اور اس کی ننگ پر ایک حملہ ہے ۔اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سندھ اور کراچی میں بلوچوں کے ساتھ ایک ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔وہ اس جبر کی ابتداہے جس پر اگر آج کراچی کے بلوچ خاموش رہے تواس کے بعدکل ہمیں اس کے اور زیادہ نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ کراچی بلوچستان اور بلوچوں کا سب سے بڑا شہر ہے ۔میں سمجھتی ہوں کہ کراچی کے بلوچوں کو اس پر خاموشی نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ہم جلد از جلد آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرینگےاور سندھ حکومت اور سندھ پولیس کو یہ الٹی میٹم دیتے ہیں کہ وہ بی وائی سی کے مرکزی رہنمائوں سمی بلوچ ، آمنہ ، فوزیہ اور لالہ وہاب کو فوری رہا کرے اوراس کے ساتھ ساتھ آنے والے وقتوںمیں بی وائی سی کے ریلی، اور دیگر تقریباب پراگر کوئی بھی حملہ ہوا تو اس کے خلاف ہم پورے کراچی میں ایک منظم تحریک چلائیںگے۔
انہوں نےکہا کہ اظہار رائے کی آزادی اور بلوچ کے اپنے حقوق کےلئے پر امن احتجاج کو روکنے پر سندھ پولیس کو اہم ایک سہولت کار اورکولیبریٹر کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ نہتے بلوچ مطاہرین پر حملہ آور ہوئے ہیں حالانکہ کراچی میں ایسے کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو وقتاً فوقتاًمظاہرے کرتے ہیں اور ان کو پروٹوکول دیا جاتا ہے ، ان کو سیکورٹی دی جاتی ہے ۔لیکن بلوچ کے نام پر وہاں کسی بھی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ یہ در اصل کراچی کے بلوچوں کو ، ان کے زمین سے بے دخل کرنے اور ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ کراچی میں بلوچ تحریک کیلئے اب کوئی جگہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ میں کراچی کے بلوچوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ یہ حملہ سمی بلوچ کی چادرپر نہیں بلکہ آپ پر ، ہم سب کی غیرت پر ہوا ہے کہ کراچی میں ہونے والی تحریک پر ہر دفعہ پولیس دھاوا بولتی ہے اور اس کے بعد ہمارے ساتھوں کو رہا کرتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ رہا کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ہم ان متشدد پالیسی کے خلاف ہیں جس کے تحت ہمیشہ بی وائی سی کے کارکنان پر حملہ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم دوبارہ سے سندھ پولیس اور سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد بی وائی سی کے کارکنان کو رہا کیا جائے ۔ اور اگراس کے بعد بی وائی سی کے کسی بھی مظاہرےیا پروگرام پر تشدد کا رویہ اختیار کیا گیا تو ہم اس کے خلاف ایک بھرپور چلائیں گے جو پورے کراچی سمیت بلوچستان بھر میں سندھ حکومت کیخلاف تحریک چلائیں گے۔