بلوچستان لبریشن فرنٹ( بی ایل ایف)کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک پریس ریلیز میں آواران اور تربت میں مختلف کارروائیوں میں پاکستانی فوج اور ایم آئی آلہ کار پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے 12 دسمبر کی دوپہر تقریباً بارہ بجے آواران شہر میں آرمی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور مرکزی کیمپ کو نشانہ بنایا۔ سرمچاروں نے متعدد مارٹر گولے داغے جو مرکزی کیمپ اور ہیڈکوارٹر کے اندر گرے۔ قابض فوج نے حواس باختگی میں آواران شہر سے متصل قریبی گھروں پر بے شمار مارٹر گولے داغے جو آبادی والے علاقوں میں جا گرے۔
ان کا کہنا تھا کہ قابض فوج کے مرکزی کیمپ کے بالکل عقب میں فوج کے سرپرستی میں ایف سی پبلک اسکول کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم ہے۔ ایک مارٹر گولا اسی ایف سی پبلک اسکول پر بھی گرا۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ بذریعہ میڈیا بلوچ والدین کو آگاہ کرتے ہوئے واضح کرتی ہے کہ یہ اسکول ایک تعلیمی ادارے سے زیادہ نیم فوجی تربیتی مرکز ہے جہاں نوآبادیاتی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو بلوچ تاریخ، ثقافت اور مزاحمتی ادب سے دور رکھا جا رہا ہے۔ یہ نام نہاد اسکول مستقبل قریب میں بلوچ بچوں کو باقاعدہ طور پر فوجی اداروں میں بھرتی کرنے کا ایک منظم منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایل ایف بلوچ والدین سے گزارش کرتی ہے کہ اس سازشی منصوبے کی سنگینی کو سمجھیں کیونکہ یہ بلوچ قومی بقا سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ مزید یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ بڑی کارروائیوں کے دوران فوجی کیمپوں کے قریب موجود بچوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی رہتا ہے اس نازک صورتحال کو سمجھتے ہوئے بلوچ والدین اپنے بچوں کو ایسے عسکری اداروں سے دور رکھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ روز ایک اور کاروائی میں شام تقریباً سات بجے سرمچاروں نے آواران کے علاقے کنیرہ میں پاکستانی فوج کے کیمپ پر انتہائی قریب سے حملہ کیا۔ حملے میں پہلے راکٹ لانچرز کے ذریعے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک راکٹ فورسز کی حفاظتی چوکی پر گرا جس کے نتیجے میں دو اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں سرمچاروں نے ایل ایم جی اور اسنائپر رائفل کے ذریعے بھی کیمپ کو نشانہ بنایا۔
ترجمان نے کہا کہ خفیہ اطلاعات پر سرمچاروں نے ایک اور کاروائی کرتے ہوئے اتوار کے دن ایک بجے تربت کے علاقے آپسر ریسرچ فارم پر رحمدل ولد فضل کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ مذکرہ بالا شخص تربت کے علاقے آپسر ڈاکی بازار کا رہائشی تھا جو قابص فوج کا اہم کارندہ تھا۔ رحمدل اس سے پہلے زلخان کے ساتھ کام کرتا رہا ہے اور زلخان کی ہلاکت کے بعد وہ ایم آئی کے ایک اور آلہ کار نصیر کے ساتھ وابستہ رہا۔ نصیر کے ہلاکت کے بعد وہ تربت میں قائم ایم آئی کی دفتر سے برائے راست منسلک تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایم آئی آلہ کار رحمدل بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف سرگرم تھا اور تربت شہر کے مختلف علاقوں میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی، قابض فوج کی سرپرستی میں مختلف سماجی برائیوں میں ملوث تھا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ آواران اور تربت حملوں میں دو قابض فوجی اہلکاروں اور ایم آئی آلہ کار کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ قابض فوج اور اس کے سہولت کاروں کو بلوچستان کے ہر کونے میں نشانہ بنایا جائے گا۔