حب : جبری گمشدگیوں کیخلاف بھوک ہڑتال جاری،بھوانی میں روڈ بلاک دھرنا ختم

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار جنید حمید، یاسر حمید، نوروز اسلام اور چاکر بگٹی کے اہل خانہ کا بھوک ہڑتالی کیمپ دوسرے روز جاری ہے جبکہ بھوانی اسٹاپ پر لاپتہ اسرار بلوچ کی بازیابی کیلئے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ روز جمعہ کوجنید حمید، یاسر حمید، نوروز اسلام اور چاکر بگٹی کے اہل خانہ نے لسبیلہ پریس کلب کے باہر تین روزہ بھوک ہڑتال کیمپ لگایاتھا۔

دوسری جانب حب میں بھوانی اسٹاپ پر لاپتہ اسرار بلوچ کی بازیابی کیلئے جاری دھرناختم کر دیا گیا۔

بلوچستان بھر میں جاری بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ریاست مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مختلف طریقوں سے بلوچ نسل کشی کو ہوا دے رہی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات روز بروز زور پکڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حب چوکی میں لاپتہ افراد جنید حمید، یاسر حمید، نوروز اسلام اور چاکر بگٹی کے اہل خانہ نے لسبیلہ پریس کلب کے باہر تین روزہ بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ اگرچہ پولیس اور مقامی حکام نے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی اور متاثرہ خاندانوں کو ہراساں کیا، احتجاج اب بھی جاری ہے۔

بی وائی سی کا کہنا تھا کہ تربت میں آپسر کولوئی بازار کے رہائشی فدا ولی داد کے اہل خانہ نے مسلسل دوسرے روز بھی شہید فدا چوک پر دھرنا دیا۔ ان کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے نو دیگر بلوچوں کے رشتہ دار اور اہل خانہ بھی شامل تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں اہل خانہ نے مزاحمت کرنے اور ان کے پیاروں کی بحفاظت رہائی تک دھرنا جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے 12 جنوری کو سہ پہر 3 بجے پرامن ریلی کا اعلان بھی کیا ہے۔

ا ن کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایک سال قبل جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اسرار بلوچ کے اہل خانہ نے N-25 (کوئٹہ کراچی ہائی وے) بھوانی اسٹاپ پر بلاک کر دیا ہے۔ اہل خانہ نے اسرار بلوچ کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا۔ حکام کی یقین دہانی پر سڑک کو کھول دیا گیا اور دھرنا ختم کر دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کھڑی ہے اور بلوچ نسل کشی کی اس لاتعداد داستان کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی بڑھتی ہوئی تعداد کا نوٹس لینا چاہیے۔ بلوچ قوم کو کھڑے ہو کر مزاحمت کرنی چاہیے ورنہ ریاستی تشدد اور بلوچ نسل کشی مزید بڑھے گی۔

Share This Article