پاکستانی فوج بہاولپور میں زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے، قومی اسمبلی میں احتجاج

0
355
ریاض حسین پیرزادہ، بہاولپور سے قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وفاقی وزیر

پاکستان کی سینئر سیاست دان اور رکن پارلیمنٹ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے پاکستان کی فوج کی جانب سے جاری کاروباری سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات عوام میں افواج کے سربراہان احترام اور ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فوج کی کاروباری سرگرمیوں کے لئے جنوبی پنجاب میں زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں اور چولستان کے علاقے سے فوج آٹھ آٹھ سو سال سے آباد لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ کہتے ہیں کہ بہاولپور کے لوگوں کے ساتھ فوج کی جانب سے ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے، جیسا امریکہ میں ریڈ انڈینز کے ساتھ روا رکھا گیا اور انہیں ان کے علاقوں سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے فوج کی بدنامی ہو رہی ہے اور عوام کے دلوں میں اپنے محافظوں کی عزت و احترام میں کمی آ رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ نے سوال کیا کہ فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی اجازت کس نے دی ہے اور وہ کن قواعد کے تحت فوجی مقاصد کے لئے حاصل کی گئی زمین پر ہاو¿سنگ سوسائٹی بناتے ہیں۔

فوج کے زیر انتظام کاروباری سرگرمیوں پر ماضی میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، تاہم کسی منتخب رکن پارلیمان نے فوج کے کاروبار پر براہ راست تنقید کو غیر معمولی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس سے قبل گذشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایوان میں فوج کے زیر انتظام کاروبار کی تفصیلات کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ تب کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ فوج تقریباً پچاس اقسام کے کاروبار کر رہی ہے جن میں رہائشی کالونیاں، اسکول، اسپتال، ریستوران، اصطبل، شوگر ملیں، بینک اور ایئرلائنز کے علاوہ دلیہ، کھاد، سیمنٹ، دودھ، ایندھن، انشورنس اور ایڈورٹائزنگ کا بزنس بھی شامل ہے۔

ریاض پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ہماری فوج کے موجودہ کور کمانڈرز نے دہشت گردوں کے خلاف براہ راست جنگ لڑی ہے۔ اسی بنا پر دشمن ہماری فوج سے گھبراتا ہے لیکن ہم نے فوج کو کاروبار اور اپنے عوام پر تھانے داری کے لئے لگا دیا، جس سے عوام میں ان کی قدر کم ہو رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں چھ مرتبہ رکن پارلیمان منتخب کیا اگر وہ ان مسائل پر بات نہ کریں تو یہ انہیں منتخب کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ بات نہ کریں تو مرتے ہیں بات کریں تو پہاڑ کو سر مارنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ موت سے خوف نہیں کھاتے۔ ان کے والد کو 35 روپے کی بندوق کی گولی سے قتل کر دیا گیا۔ انہیں بھی زیادہ سے زیادہ تین سو روپے کی گولی سے خاموش کروا دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ریاض پیرزادہ چھٹی بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور ان کے والد بھی بہاولپور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔

سینئر صحافی و تجزیہ نگار سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ ریاض حسین پیرزادہ پرانے منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک اور جذباتی بھی ہیں، جس کی وجہ ان کے والد کو فرقہ وارانہ انتہا پسند جماعت کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے قتل کیا جانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر ماضی میں بھی بات ہوتی رہی ہے، تاہم جنوبی پنجاب سے اس ردعمل کا آنا صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ افواج سے وابستہ افراد دیگر شعبوں کی نسبت بہت جلد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور انہیں ملنے والی پینشن کی رقم اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ گذر بسر کر سکیں۔ لہذا ان کے لئے متبادل ذرائع آمدنی کے طور پر ایسے کاروباری اداروں کو لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سی افواج سویلین سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اور فوج کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے معاشی و اقتصادی حالات کو بہتر کرنے میں ان سرگرمیوں کو مثبت انداز میں لیا جانا چاہئے۔

سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی باتیں چل رہی ہیں سندھ میں فوج پر حملے ہورہے ہیں ایسے میں اگر جنوبی پنجاب سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں تو یہ بہت قابل تشویش ہونا چاہئے اور صورت حال کو اس قدر نہیں بڑھ جانا چاہئے کہ باتیں جلسوں اور جلوسوں میں ہونے لگیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاست کو طے کرنا ہو گا کہ فوج اور دیگر اداروں کے درمیان کہاں حد بندی طے کرنی ہے۔

ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے بھی کہا کہ فوج کو ایسی سرگرمیاں شروع نہیں کرنی چاہئیں جس سے عام آدمی کے متاثر ہونے کا تاثر جائے۔

ان کی نظر میں فوج کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ان کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہوا جائے تاکہ ان پر تنقید نہ کی جا سکے۔

میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فوج کی جانب سے باقاعدہ طور پر اس حوالے سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا البتہ سیاسی جماعتوں اور ریٹائرڈ فوجی افسران نے ان سے ملاقات کر کے تقریر کو سراہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بطور رکن پارلیمنٹ آئینی فورم پر اپنے حلقے کی عوام کی تکلیف بیان کی ہے اور اسے فوج پر تنقید نہیں بلکہ اصلاح کے طور پر لیا جانا چاہئے۔

ریاض پیرزادہ نے کہا کہ وہ ریاستی اداروں بالخصوص ملک کے دفاعی اداروں پر عوامی سطح پر تنقید کے حامی نہیں ہیں، لیکن ایک سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اداروں کی اصلاح کے لئے آئینی فورم پر آواز اٹھاتا رہے۔

خیال رہے کہ تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے پاکستانی فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر 2007 میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مختلف اقسام کے کاروبار میں پاکستانی فوج کے سرمائے کی مالیت بیس ارب ڈالر ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے اس کتاب میں شامل اعداد و شمار کو غلط قرار دیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here