ابا(بختیار) تیرا کردار آج بھی فخر کی علامت ہے تحریر:۔ سلیم بختیار

0
608

وقت و حالات کیسے اور کس انداز سے انسانی زندگی پر اثر چھوڑ جاتے ہیں، چوں کہ ایک ایسے ماحول میں ہم پرورش پارہے ہیں اس لیے ایسے بیش بہا واقعات نہ صرف میرے سامنے سے گزرچکے ہیں اور آئے روز رونما ہورہے ہیں بلکہ آج قوم کے اکثر فرزند ان واقعات کو بنفسِ نفیس دیکھ بھی رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ ہاں یہ واقعہ جو میرے آبائی علاقے کا ہی نہیں بلکہ گھرکا ہے جس کے بارے میں میں جتنا سوچتا ہوں اس کی انفرادیت اتنی شدت سے سامنے آتی ہے کہ بختیار(ابا) جو کہ ایک عمومی انسانی تھا جس کی سوچ، جس کا فکر فقط گھر کی ضروریات یا اپنے اولاد کی تعلیم و تربیت پہ مرکوز تھی کہ وہ بڑے ہوکر بڑے عہدوں پہ برا جماں ہونگے جہاں کسی کو میں ڈاکٹر، کسی کو انجینئر اور کسی کو وکیل کہہ کر پکارونگا۔۔۔ان کی ان کامیابیوں کی وجہ سے میرا فخر علاقے میں ہمیشہ اونچا رہے گا۔۔۔لیکن حالات نے ان کی سوچ ایسا تبدیل کیا کہ وہ فخر کا معیار فقط کسی مقصد عظیم جس کا دائرہ کار کسی اجتماع کے گرد گھومتی ہے کو تصور کرنے لگا۔

ابا سترکی دہائی میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دیار غیر(خلیج)کا رخ کیا اور غالباً تیس سال تک وہ وہاں مقیم رہے البتہ سال دو سال بعد ایک دو ماہ کے لیے گھر کا طواف کرنے آجاتا۔ جب ابا نے خلیج کا رخ کیا تو ان دنوں بلوچستان میں بھٹو حکومت تھی اور انہی دنوں بلوچستان کے چند ایک علاقوں میں بلوچ جہد کار عَلمِ آزادی بلند کرنے جان کی بازی لگا رہے تھے لیکن ابا ان سے بے خبر گھر اور خاندان کی ضرورتیں پوری کرنے میں مگن تھا۔یہ دور بھی گزر گیا اور بلوچ قوم پہ ایک بڑے عرصے تک سکوت طاری رہا شاید ابا بھی بعض دیگر بلوچوں کی طرح جہدِ آزادی سے مایوس ہوچکا تھا اور اس قسم کی جنگوں کو وقت کا ضیا تصور کرنے لگا تھا اسی لیے انہیں بذات خود میں نے سیاسی عمل سے دور ہی دیکھا جہاں کبھی اگر وہ گھرآجاتا تو ان کی گفتگو خاندان اور ان کے مسائل حل کرنے اور ہماری تعلیم و تربیت پہ مرکوز ہوتی کہ بچے بڑے ہوکر اپنی تعلیم و محنت سے سماج میں نام پیدا کریں گے۔

ان کی ایسی گفتگو سے اکثر اوقات یہ ظاہر ہوتا تھا کہ بچوں کی باعزت نوکری و روزگار سے میرا سر بھی فخر سے اونچا ہوگا۔لیکن کون جانے کہ ابا جس کی سوچ کا محور فقط اپنے خاندان تک محدود تھا وہ اتنا وسیع ہوگا جسے بیان کرنا ممکن نہیں، وہ ابا جو ہمیں نوکرشاہی پہ دیکھ کر خوش ہونے کا اظہار کرتا تھا وہی اس غلامانہ زندگی سے نفرت کو ہی مقصد حیات تصور کرے گا، ابا جس سے بچوں کی ذرا سے تکلیف برداشت کرنا محال تھا وہ بیٹوں کو راہ شہادت کی طرف گامزن کرنے تیار ہوچکا تھا۔ انقلاب کے لیے ابا ذہنی طور پہ تیار ہوچکا تھا یہ حالات تھے، رضا کی تربیت تھی یا ماضی میں ان کی خاموشی ایک مصلحت کچھ کہا نہیں جاسکتا۔۔۔لیکن ابا اب تیار تھا یہی بات دراصل منفرد تھا جس سے میں رضا کے چہرے پہ بھی اطمینان دیکھ سکتا تھا، ابا کے اس تبدیل ہوتے رویے سے میں نے ماں کو بھی پرسکون دیکھا۔۔۔ویسے ماں تو عرصہ قبل اس راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار تھی لیکن وہ روایات اور اقدار کی وجہ سے ابا کے سامنے اظہار نہیں کرسکتی تھی پر ابا کے اس رویے نے ماں کے لب کھول دیے اور اب وہ کھل کر ہمیں جہد آزادی کی تلقین کیا کرتی تھی۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کھٹن راہوں پہ اس وقت زیادہ مستقل مزاجی سے سفر کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جب اس کے ساتھ اسے جنم دینے والوں کا حوصلہ ہو۔ ابا کی یہ بات کہ جیل مردوں کی آماجگاہ ہے میرے لیے حوصلہِ ہمالیہ ثابت ہوا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب 2007ء میں 14اگست کے دن میں دیگر بعض بلوچ نوجوانوں کے ساتھ آواران میں حکومت مخالف ریلی اور مظاہروں میں پکڑا گیا تو اولذکر والد کی پریشانی کی انتہاء نہیں تھی لیکن حالات نے شاید اسے اس نہج پہ پہنچایا اور وہ حقیقت سے روشناس ہوچکا تھا کہ راستہ یہی ہے جس سے کسی اجتماع کی تقدیر بدلے گی۔حالانکہ ازبعد میری گرفتاری ڈسٹرکٹ ناظم خیرجان بزنجو سمیت بعض دیگر سرکاری کاسہ لیسوں نے والد کو ڈرانے دھمکانے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی کہ ایسا عمل جو ریاست کے خلاف ہو اس میں آپ کے بیٹوں کی جان تک جائے گی۔۔۔لیکن میری حیرانی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب والد نے تھانے آکر مجھے کہا کہ”تمہارا حوصلہ آنے والوں کو اور جو اس عمل سے وابستہ ہے ان میں حرارت پیدا کرنے کا کام دے گا لہذا یہ بات ذہن نشین کرلوکہ جیل و عقوبت خانے مردوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔“ والد نے ملاقات کی، چار الفاظ ادا کیے، الفاظ بھی ایسے کہ میرا حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔۔۔اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ والد کی یہ سوچ قابل فخر ضرور ہے پر وہ کیا محرکات ہیں جن کی وجہ سے آج والدنے اپنے بیٹے کی قربانی سے دریغ نہیں کیا؟ میں شاید ذہنی حوالے سے اتنا پختہ نہیں تھا اس لیے سوچوں کی سمند ر میں کھوگیا۔ابا کی ذہن کی پختگی تو بعد میں بیان کرونگا کہ ابا توشاید بچپن سے ہی قوم اور وطن کے لیے جنم لے چکا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات گھمبیر ہوتے گئے ابا نے بھی 2005ء کے بعد دریارِ غیر کو خیر باد کہہ چکا تھا۔ ایسے حالات میں جہاں قابض ریاست آئے روز لوگوں پہ قہر ڈھارہا تھا ایسے میں مشکلات کا آنا فطری عمل ہے۔ 2012ء کا ایک واقعہ جب گھر میں رات کے وقت کسی مرد کو سونا نصیب ہی نہیں تھا ابا بھی ہم بھائیوں کے ساتھ پیش کے جنگلات و تیرتیج کے ندیوں میں سونے کا عادی ہوچکا تھا۔رات وہ کبھی ہماراہم سفر بنتا، لیکن اکثر وہ تنہا جنگلوں اور ندیوں میں رات گزارتا اور صبح کھیتوں میں کام کرنے نکل پڑتا۔حالات کی سختیاں اور آئے روز کی تشدد زدہ لاشیں دیکھ کر ایک دن ابا نے خواہش ظاہر کی کہ ”مجھے اب مسلح ہونا ہے کیوں کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ ریاست کے اہلکار مجھے زندہ گرفتار کرلے اگر میں مسلح رہوں گا تو اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ اس ہتھیار سے اپنا خاتمہ بھی کرسکونگا۔“ ابا کی یہ بات سن کرمیں نے شہید رضا جان سے کہا کہ ابا سرمچار بن چکا ہے اب کہہ رہا ہے کہ مجھے بندوق کی ضرورت ہے۔رضا جان نے مسکرا کر کہا کہ ہمارا ارداہ ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے اور جب ارادے مضبوط ہونگے تو یہ آنے والی نسلوں لیے حیات کا عمل ثابت ہوگا۔ابا کی مسلح ہونے کی خواہش تو کبھی پوری نہ ہوسکا لیکن ذہنی طور پہ وہ اس قدر مسلح تھا جس پہ جتنا سوچتاہوں ابا کا کردار میرے لیے اتنا ہی باعث فخر بنتا ہے۔ ابا ذہنی طور پر مسلح ہی تھا جب جوان بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملتی ہے تو وہ پہاڑوں کا حوصلہ لیے ثابت قدم رہتا ہے اور اپنا سرفخر سے اونچا کرکے کہتا ہے کہ ”رضا جان نے مٹی کا قرض ادا کیا، آج میں فخر کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ رضا میرا بیٹا تھا۔“ رضا جان کو جب سپردِ زمین کیا تو ابا نے کہا کہ ”علاقے میں اور عزیزوں میں کتنے افراد موت کو گلے لگا چکے ہیں لیکن جو عزت مجھے رضا جان کی شہادت کی وجہ سے ملی اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا جہاں آج ہر بلوچ فرزند آکے میرے ہاتھوں کو بوسہ دے رہیں تھے اور میرے پاؤں چھو رہے تھے اور ہر کوئی خاموش زبان سے بھی یہ اظہار کررہا تھا کہ وہ رضاجان کا والد ہے جس نے ایسے فرزند کو جنم دیا جس کا کردار پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔“ رضا جان کی شہادت کے بعد ابا کا یہ حوصلہ نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے گھر کے لیے قابل رشک تھا اور کبھی کسی نے ابا کا مغموم چہرہ نہیں دیکھا بلکہ اب وہ مزید توانا ہوگیا تھا اور ہمیں ہمہ وقت جہد آزادی میں عملی کردار اداکرنے کی تلقین کیا کرتا تھا۔ابا کے اسی حوصلے کو ہی دیکھ کر قابض ریاست نے انہیں راستے سے ہٹانے میں اپنی عافیت جانی اور یوں 28اگست 2014ء کے دن جب ابا عبادت میں مصروف خدا کے آگے سربسجود تھا تو دشمن نے انہیں دیگر چھ عبادت گزاروں سمیت شہید کیا۔ آج ابا کو وطن پہ قربان ہوئے آٹھ سال ہونے کو ہے لیکن ابا نے زندگی میں ہمیں جو حوصلہ عطا کیا وہ ہمارے لیے باعث فخر ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اماں اور ہمارا جہد عمل سے وابستگی میں ابا کا کردارمنفرد اہمیت کا حامل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here