گذشتہ روز 10 دسمبر کوانسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ ،کراچی ، کیچ اور حب میں ریلی وسیمینار زکا انعقادکیا گیا۔
ان تقاریب کا مقصد بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا تھا۔ تاہم، ان سرگرمیوں کے دوران ریاستی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
کوئٹہ، کراچی اور حب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ تقریابت کو پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کئی رکاوٹیں ڈالنے اور مظاہرین و کارکنوں کو ہراساں کرنے کے باوجود یہ پروگرام کامیابی سے منعقد کیے گئے۔
ان تقاریب کا مقصد بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا تھا۔ تاہم، ان سرگرمیوں کے دوران ریاستی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
شرکاء نے اس موقع پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور بلوچ عوام کے ساتھ ریاستی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔
عالمی انسانی حقوق کے دن کے موقع پر حب چوکی میں بی وائی سی کی جانب سے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے ایک پرامن واک کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف شعور اجاگر کرنا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے پریس کلب کے راستے بند کر دیے اور کچرے کے ٹرکوں سے رکاوٹیں کھڑی کرکے مظاہرین کو واک منعقد کرنے سے روک دیا۔
اس موقع پر جبری لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، جو اپنے گمشدہ بیٹے کی تصویر اٹھائے موجود تھیں، نے کہا ہم پرامن احتجاج کے لیے آئے تھے لیکن حکام نے کچرے کے ٹرک لگا کر ہمارے راستے بند کر دیے۔
باوجود رکاوٹوں کے، خواتین، بچوں، اور دیگر شرکاء نے حب پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور اپنے لاپتہ عزیزوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا مظاہرین نے اپنے آئینی حق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کو روکنا جمہوریت کے خلاف ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ریاستی ادارے جان بوجھ کر بی وائی سی کے سیمینار کو سبوتاژ کر رہے ہیں جوکہ عالمی انسانی حقوق کے دن پر "ہمارے حقوق، ہمارا مستقبل، فوری” کے عنوان پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ کوئٹہ کی انتظامیہ اور پولیس شرکاء سے انکے ذاتی معلومات حاصل کرنے کے بعد پریس کلب میں انکی انٹری کرا رہے ہیں جوکہ انکی پروفائلنگ کرکے بعدازاں انہیں ہراساں کیا جائے گا۔
اسی طرح انہوں نے حب چوکی میں منعقدہ تقریب کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ لسبیلہ پریس کلب کے احاطے کو میونسپلٹی کی گاڑیوں اور کوڑادانوں سے گھیر کر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف پرامن مظاہرہ کو روکا جا سکے۔
درایں اثناء کیچ کی ضلعی انتظامیہ نے بھی تربت کے مظاہرے کو گھیرے میں لیکر عالمی انسانی حقوق کے دن کے موقع پر شرکاء کو ہراساں کیا ہے۔
کراچی، تربت، حب چوکی اور کوئٹہ میں مظاہروں اور سیمینارز میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء، سیاسی تنظیموں کے ارکان، شہریوں، اور جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے شرکت کی۔
بی وائی سی ترجمان نے کہا تھا کہ ریاستی ادارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں اور انسانی حقوق کے دن کے موقع پر بی وائی سی کی تقریب کو این او سی کے باوجود خراب کرنے کی کوشش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی چارٹر کے رو سے ریاستی اقدامات غیرقانونی ہیں، اور اظہارِ رائے کی آزادی، اسمبلی، وقار، سماجی و سیاسی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بی وائی سی رہنماسمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں دنیا کے سامنے کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی افسوسناک اور قابلِ تشویش ہے۔
ہم اس دن کی مناسبت سے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف مظلوموں کا ساتھ دیں اور انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔