اسرائیل کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے شام میں مشکوک کیمیائی ہتھیاروں اور میزائلوں کے سٹورز پر حملے کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے اس وجہ سے یہ کیا تا کہ یہ خطرناک ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارا اس میں صرف اسرائیل اور اس کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی حد تک دلچسپی ہے۔‘
میڈیا کے مطابق اسرائیل نے ان سائٹس پر درجن سے زائد حملے کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سائٹ وہ بھی شامل ہے جہاں مبینہ طور پر ایرانی سائنسدان راکٹ تیار کرتے تھے۔ اسرائیل کی فوج نے ایسی تصاویر بھی شیئر کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوجی بفر زون میں ان جگہوں میں بھی داخل ہو گئے ہیں جو ڈی ملٹریزائزڈ یا غیر فوجی علاقے کہلاتے ہیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ شام کی سرکاری فوج نے جو پوسٹیں خالی کر دی ہیں ہم ان کا بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کیا وہ شام کے زیر انتظام علاقوں میں بھی داخل ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ 7 اکتوبر جیسے حملے سے بچنے کے لیے ان کی فوج اسرائیلی علاقوں میں بھی عارضی طور پر داخل ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب یروشلم میں اپنی میڈیا کانفرنس میں اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سار نے کہا ہے کہ اسرائیل اور شام کے درمیان تقسیم گولان ہائٹس پر قبضہ محدود اور عارضی اقدام ہے تا کہ اسرائیل کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
گذشتہ روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے فوج کو بفر زون کا انتظام سنبھالنے کی ہدایات دی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ بشار الاسد کی بےدخلی کے بعد اب شام سے 1974 میں کیا جانے والا معاہدہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اس علاقے کو جسے بفر زون بھی کہا جاتا ہے میں دونوں طرف سے فوج تعینات نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے شام میں گولان کے علاقے پر سنہ 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور پھر سنہ 1981 میں اسے یکطرفہ اسرائیل میں ضم کر دیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی منظوری حاصل نہ سکی۔ اگرچہ سنہ 2019 میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر اسرائیل کے اس قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔
تصاور میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج بفر زون میں داخل ہو کر آگے کی طرف پیشقدمی کر رہے ہیں۔