جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کے خلاف مواخدے کا بل پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو سکا یوں وہ اب بھی صدارت کے منصب پر فائز رہ سکیں گے۔
ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے لیے 200 ووٹ درکار تھے مگر اس بل کے حق میں 197 ووٹ سامنے آئے۔ حکمران جماعت نے اس ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔ اگر پی پی پی یعنی پیپل پاور پارٹی کے کم از کم آٹھ بھی ارکان اس بل کی حمایت میں ووٹ دیتے تو صدر یون کے خلاف دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی اور یوں انھیں اپنی صدارت سے ہاتھ دھونے بھی پڑ سکتے تھے۔
جنوبی کوریا کے صدر نے پورے ملک کو اس وقت حیران کر دیا جب منگل کی رات اچانک ہی انھوں نے اس ایشیائی جمہوریت میں تقریباً 50 سالہ بعد پہلی بار مارشل لا لگانے کا اعلان کیا۔
یون سوک یول کا یہ انتہائی اقدام، جس کا اعلان رات دیر گئے ٹی وی پر نشر کیا گیا، بظاہر ریاست مخالف قوتوں اور شمالی کوریا کے خطرے کے پیش نظر اٹھایا گیا تاہم جلد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ اس کی اصل وجہ بیرونی خطرات نہیں بلکہ ان کی اپنی سیاسی مشکلات تھیں۔
تاہم اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مارشل لا ختم کروانے کے لیے ایمرجنسی ووٹ دینے پہنچے۔
چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
صدر یون مئی 2022 میں برسر اقتدار آئے تھے اور انھیں سخت گیر قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اپریل میں اپوزیشن کی انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ان کی صدارت کمزور ہو چکی تھی۔
حکومت اپنی مرضی سے قانون سازی کرنے میں ناکام رہی اور لبرل اپوزیشن کی جانب سے منظور کردہ بلوں کو ویٹو کی طاقت سے رد کرتی رہی۔
صدر کی عوامی حمایت میں بھی کمی آئی جو 17 فیصد کے قریب پہنچ گئی۔ رواں سال صدر یون متعدد کرپشن سکینڈل کی زد میں بھی رہے جن میں سے ایک میں الزام تھا کہ ان کی اہلیہ نے ایک مہنگا بیگ بطور تحفہ وصول کیا جبکہ ایک اور سکینڈل سٹاک میں ہیرا پھیری کا بھی ہے۔
گزشتہ ماہ صدر نے سرکاری ٹی وی پر معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ اور خاتون اول کے فرائض پر نظر رکھنے کے لیے ایک دفتر قائم کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے تفتیش کے مطالبے کو رد کر دیا۔