جنوبی کوریا: ناکام مارشل لا کے بعد صدر کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لا کے بعد اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سمیت پانچ دیگر جماعتوں نے بدھ کو مشترکہ طور پر صدر کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرا دی ہے جس پر جمعے تک ووٹنگ متوقع ہے۔

اس سے قبل پارلیمنٹ نے ووٹنگ کے ذریعے صدر کے مارشل لا کو بھی منسوخ کیا تھا۔

اگر مواخذہ منظور ہو جاتا ہے تو یون کے خلاف آئینی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا جو انھیں عہدے سے ہٹانے کا اختیار رکھتی ہے۔

اسی وقت یون سوک یول کے عملے نے مارشل لا کے اعلان کے مختصر مدت کے فیصلے کے بعد اجتماعی طور پر اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں جن ممبرز کی جانب سے استعفے دیے گئے ہیں اُن میں مُلک کے وزیرِ دفاع بھی شامل ہیں۔

صدارتی دفتر کے بیان کے مطابق صدر کے تمام سینئر سیکرٹریز کے علاوہ چیف آف سٹاف، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور ڈائریکٹر آف نیشنل پالیسی نے آج صبح اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔

’پیپلز پاور‘ پارٹی جس کی حکومت کے سربراہ یون سوک یول ہیں نے ایک ہنگامی اجلاس بلا کر اور وزیر دفاع کو برطرف کر کے پورے حکومتی بورڈ کے استعفیٰ پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم اس کے برعکس رہنماؤں کے درمیان ابھی تک اس معاملے پر اختلافِ رائے پایا جا رہا ہے۔

اگرچہ یون سوک یول نے حکم نامہ جاری کرنے کے چند گھنٹے بعد ہی ایمرجنسی مارشل لا کو منسوخ کر دیا تاہم صدر کے اس اعلان کے بعد سے سیول میں پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہونے والے ہزاروں مظاہرین نے یون سک یول کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کے کسی صدر کا مواخذہ کیا گیا ہو۔ تقریباً 10 سال قبل جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہائے کا بھی 2016 میں اپنے ایک دوست کو بھتہ خوری میں مدد کرنے کے الزام میں مواخذہ کیا گیا تھا۔

مواخذے کے لیے جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے 300 ارکان میں سے دو تہائی کو مواخذے کے لیے ووٹ دینا ضروری ہے – یعنی کم از کم 200 ووٹ۔

مواخذے کی منظوری کے بعد، نو رکنی کونسل جو جنوبی کوریا کی حکومت کی نگرانی کرتی ہے، آئینی عدالت میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔

اگر اس عدالت کے چھ ارکان نے مواخذے کی منظوری کے لیے ووٹ دیا تو صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔

2016 میں یہ عمل کامیاب رہا تھا اور 234 ارکان پارلیمنٹ نے صدر پارک کو ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔

Share This Article