اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تصور بلوچستان میں بے معنی ہوگئی ہے، ماما قدیر

0
18

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5621 دن ہو گئے ۔

نال گریشہ سے بی این پی مینگل کے ساجدی بلوچ، سراج ساجدی اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض فوج نے بلوچستان بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ خضدارت کے آوار ان نال گریشہ بولان سبی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوج نے اپنے مقامی گماشتوں کے ساتھ مل کر کراچی میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے زرغون ولی تنگی اور گرد نواح کے علاقوں میں آپریشن جاری ہے اور دو کم عمر لڑکے بھی گذشتہ دنوں جبری طور لاپتہ کرنے کے بعد نا معلوم مقام پر منتقل کر دیے گئے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کی انتہا کردی ہے لیکن عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے دعو یداروں کی بے حسی تاحال قائم ہے جس سے بلوچ پر امن جدوجہد پر انسانی حقوق اور عالمی قوانین کے دعوے صرف لفاظی رہ گئے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کی جبر اور اقوام متحدہ کی بے حسی نے انسانی حقوق کے تصورات کو بلوچستان میں بے معنی ثابت کر دیا ہے بلوچستان حقیقی معنوں میں ایک انسانی حقوں سے ماوراے خطے کی صورت اختیار کر چکا ہے بلوچستان بھر میں پاکستانی فوج کی بلوچ نسل کشی کی کاروائیاں جاری ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردانہ کاروائیوں اور بلوچ فرزندوں کے اغوا میں شدت لائی گئی ہے

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ زرغون ولی تنگی بولان سبی فورسز کے گھیرے میں ہیں، بلوچستان کی صورت حال عالمی اداروں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کے دعوئوں اعلامیوں اور عالمی قوانین پر سوالیہ نشان انسانی حقوق کے چارٹر کی منظوری اور اس کے بعد انسانی حقوق سے متعلق متعدد اعلامیوں اور قراردادوں کے باوجود گزشتہ 6 دعائیو ں سے بلوچ نسل کشی، فرزندوں کے دن دھاڑے اغوا، شہادتیں رکنے کا نام نہیں لیتے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here