بلوچ نیشنل مومونٹ کے سابق چیئر مین خلیل بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون، انصاف اور گورننس کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک ہے جس کا نمبر 142 ممالک میں 140 ہے۔ یہ پریشان کن حقیقت ان سرمایہ کاروں کے لیے ایک سخت انتباہ کا کام کرتی ہے جو پاکستان کو ایک قابل عمل موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے وہ اپنے وسائل کو ایک ناکام ریاست میں خطرے میں ڈالتا ہے۔ جس میں حل طلب قومی سوالات اور اندرونی تضادات، وسیع پیمانے پر عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ محض جرائم یا معمولی واقعات کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کی جڑیں نوآبادیاتی قوموں کے جبر اور ان کے بنیادی حقوق سے انکار میں پیوست ہیں۔ بلوچستان میں آزادی کی تحریک جاری ہے اور پاکستان اسے ختم کرنے کی وحشیانہ کوششیں کر رہا ہے۔ اسی طرح، پاکستان کے نام نہاد فیڈریشن کے تمام خطوں کو، سوائے پنجاب کے، جب وہ خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں تو جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان قومی حقوق کے لیے ان کی امنگوں کو دبانے کے لیے جبر کا استعمال کر رہا ہے، جس سے ایک مسلسل تصادم کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ انحراف کی کوششوں میں، پاکستان نے طویل عرصے سے ان قومی تنازعات کو محض امن و امان کے مسائل بنا رکھا ہے۔
بلوچ رہنما نے کہا ہے کہ رپورٹ میں سول اور فوجداری انصاف، بنیادی حقوق، گورننس اور بدعنوانی میں پاکستان کی ناقص کارکردگی کو مزید اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ایک ذمہ دار ملک کے معیار پر پورا اترنے میں ریاست کی ناکامی کو نمایاں کرتا ہے، جسے عسکریت پسند اسٹیبلشمنٹ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ریاست کی توجہ صرف استحصال اور قومی تحریکوں کو دبانے پر ہے۔ سرمایہ کاروں سے گزارش ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کی سیاسی اور سلامتی کی صورتحال بلکہ مظلوم اقوام اور اس کی سرحدوں کے اندر ان کی قومی تحریکوں پر بھی غور کریں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری مؤثر طریقے سے خودمختاری کے لیے جدوجہد کرنے والی ان اقوام کے خلاف جارحیت کو ہوا دیتی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن و امان کا بحران نہ وقتی ہے، نہ دھڑے بندی، نہ مصنوعی بلکہ اس کی جڑیں گہرے قومی تضادات سے پیدا ہوتی ہیں جن کا کوئی فوجی حل نہیں کر سکتا۔ ان حقائق کی روشنی میں، پاکستان میں حقیقی امن ناقابلِ حصول نظر آتا ہے، جو اسے کسی بھی سنجیدہ سرمایہ کاری کے لیے ایک خطرناک بنیاد بنا دیتا ہے۔