سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں مارکسسٹ لیڈر کو برتری حاصل

0
14

سری لنکا میں صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد آج بروز اتوار ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور اب تک آنے والے نتائج کے مطابق اس مقابلے میں بائیں بازو کے مارکسسٹ رہنما انورا کمارا ڈسانائیکا کو برتری حاصل ہے۔

جزوی نتائج کے مطابق انورا کمارا ڈسانائیکا کو چالیس فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ ملے ہیں، جب کہ اب تک تقریباً نصف ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے۔

اس دوڑ میں 33 فیصد ووٹوں کے ساتھ اپوزیشن رہنما ساجیت پریماداسا فی الحال دوسرے نمبر پر ہیں اور ملک کے موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے تقریباً 17 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ان جزوی نتائج کی روشنی میں سری لنکا کے وزیر خارجہ علی صابری نے کہا ہے کہ اب انورا کمارا ڈسانائیکا کی جیت واضح نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا، حالانکہ میں نے صدر رانیل وکرما سنگھے کے لیے بھر پور انتخابی مہم چلائی، لیکن سری لنکا کے لوگوں نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے اور میں انورا کمارا ڈسانائیکا کے لیے ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتا ہوں۔‘‘

انورا کمارا ڈسانائیکا ایک زمانے میں مارکسسٹ پارٹی کے رہنما تھے اور ان کا ماضی پُرتشدد کارروائیوں سے داغدار ہے۔ انورا کمارا ڈسانائیکا کی پارٹی نے سن 1970 اور 1980ء کی دہائیوں میں دو ناکام بغاوتوں کی قیادت کی تھی، جس میں 80,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اور اس پارٹی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں چار فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔

اس الیکشن سے قبل آٹھ ہفتے جاری رہنے والی انتخابی مہم میں اقتصادی مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

سری لنکا کی عوام میں اس وقت دو سال پہلے ملک میں ایک معاشی بحران کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ صدر رانیل وکرما سنگھے نے ملک کی باگ ڈور 2022ء میں تب سنبھالی تھی جب یہ بحران اپنے عروج پر تھا۔ پھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے ان کی حکومت نے سخت پالیسیاں اپنائی تھیں۔

انورا کمارا ڈسانائیکا کی پیپلز لبریشن فرنٹ پارٹی کے ایک رکن بمل رتنائیک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کہا کہ ڈسانائیکا کی جیت کی صورت میں آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی ڈیل کو ختم تو نہیں کیا جائے گا، البتہ اس میں تبدیلیوں کی کوشش کی جائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here