رپورٹ : جے خان بلوچ
بلوچستان میں پاکستانی فوج بشمول کٹھ پتلی حکومت بلوچستان، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر انتظام جاری عوامی تحریک اور اس کے قائدین کوکچلنے کیلئے طاقت کا ناجائز استعمال اور گھنائونے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے عزائم و مقاصد میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں اور اب تک ان کی پیش کردہ تمام ڈرامے فلا پ ہوگئے ہیں۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بلوچ راجی مچی دھرنے پر ریاستی حملے میں قائدین سمیت متعددافراد کی گرفتاری وگمشدگی کے بعد پوار بلوچستان سراپا احتجاج ہے اور مکمل بند ہے ۔
طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا پاکستانی فوج اور اس کے شریک کار کٹھ پتلی حکومت بلوچستان نے ناداستہ طور پر بلوچ عوامی تحریک پر کریک ڈائون کرکے بلوچستان کے مسئلے کو اب ایک بین لااقوامی مسئلہ بنادیا ہے ۔
مستونگ ، اوتھل ،تلار،گڈانی ، حب ، کوئٹہ ، قلات ، خاران ، خضدا ر سمیت متعدد علاقوں میں دھرنا ، شٹر ڈائون و پہیہ جام ہڑتال و احتجاجی ریلیاں و مظاہرے ہورہے ہیں۔
پورے بلوچستان کی انٹر نیٹ و فون سروسز بند ہیں۔ تما م راستیں بند ہیں اور لوگ انہی بند راستوں پر گذشتہ 5 دنوں سے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ۔
ریاستی ایجنسیاں اور حکومت بلوچستان عوامی احتجاج کو ختم کرنے کیلئے فوری طاقت کا استعمال کر رہی ہیں ۔
اس پر مستزاد پاکستانی مین اسٹریم میڈیا پر پر امن مظاہرین کو مشتعل و شر پسند کے القابات سے نواز اجارہا ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ فورسز پر حملہ آور ہیںاور سوشل میڈیا میں غلط و گمراہ کن تصاویر و ویڈیو جارہ کر رہے جو حقائق کے برعکس ہیں۔
گذشتہ پانچ دنوں سے بلوچستان بھر میں پھیلی ہوئی بلوچ عوامی تحریک سے ریاست پاکستان اور چین کی نیندیں اڑ ی ہوئی ہیں اور اس کو کائونٹر کرنے کیلئے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے جارہےہیں لیکن سب تدبیریں الٹاہورہی ہیں۔
کھبی بی وائی سی قائدین کو جان سے مارنے کیلئے بندے بھیجے جاتے ہیں تو کھبی پر امن ریلی و مظاہروں میں ایسے لوگ گھسائے جاتے ہیں جو توڑ پھوڑ کریں اور مظاہرین کو پر تشدد قرار دیکر ان پر چڑھائی کی راہ ہموار کیا جاسکے۔
اور کھبی براہ راست مظاہرین پر گولیاں برسائی جاتی ہیں تاکہ مشتعل ہوں لیکن مظاہرین گولیاں کھاکر،گرفتاری وجبری گمشدیاں کا شکار ہوکر اور شہادتیں دیکربھی پر امن ہیں ۔ جس سے ریاستی چال بازی و ڈرامے لگاتار فلاپ ہوتے جارہے ہیں۔
گذشتہ روزگوادر میں بلوچ راجی مچی(بلوچ قومی اجتماع) کے دوارن ریاستی ایجنسی ایم آئی کے 2 اہلکاروں کو اسلحہ وواکی ٹاکی سمیت دھرنا لیا تھا جنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں بی وائی سی قائدین ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کومارنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ایم آئی (ملٹری ایجنسی )کے دونو ں اہلکاروں کی بی وائی سی کارکنا ن کے ہاتھوں گرفتار ی کے بعد ریاست کی جانب سے مبینہ طور پربی وائی سی قائدین کو پیغام بھیجاگیا کہ انہیں چھوڑ دیں۔
کہا جارہا ہے کہ مذکورہ ایم آئی اہلکاروں کو چھوڑوانے کیلئے فورسز نے دھرنے پر حملہ کیا۔ بکتر بند گاڑیاں لوگوں پر چڑھائیں جس سےمتعدد افراد زخمی ہوگئے جن میں سمی دین ، ڈاکٹر صبیحہ ،صبغت اللہ شاجی بھی شامل تھیں، کو زخمی حالت میں دیگر سینکڑوں دیگرافراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور اب کہا جارہا ہے کہ سمی دین ، ڈاکٹر صبیحہ و صبغت اللہ شاہ جی ہمارے پاس نہیں ہیں۔
اسی طرح پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں مشتعل عوامی مظاہرین کی تشدد سے ایک آرمی اہلکار ہلاک ہوا ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے ۔کہا جارہا ہے کہ مذکورہ اہلکار 28 جولائی سے ایک روز قبل ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئے تھے اور اب اس کی لاش کو پرو پیگنڈے کے طور پرمظاہرین کو پر تشدد ثابت کر نے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔
گذشتہ روزمستونگ میں بھی جاری دھرنے کے شرکا کے بیج ایک ریاستی اہلکار کو پکڑلیا گیا ہے جس نے اعتراف کیا ہے وہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکارہیںاور پنجاب خانیوال کا رہائشی ہیں۔مذکورہ اہلکار مظاہرین کے روپ میں تھوڑ پوڑ کرتے ہوئے پکڑا گیاہے۔
اب گوادرمیں وومن پولیس اسٹیشن میں توڑ پھوڑ کاایک نیا ریاستی ڈرامہ سامنے لایا گیا ہے ۔
دعویٰ کیا جارہا ہے کہ گوادر میں مظاہرین نے وومن پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، توڑ پھوڑ کی، 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مشتعل مظاہرین نے گوادر میں بی اینڈ آر کے دفتر میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرکے سرکاری ریکارڈ کو بھی جلایا دیا۔
اس سلسلے میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے کہا کہ مظاہرین حکومت اور ریاست کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں۔ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان اور فورسز پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
یاد رہے کہ گوادر مکمل طور پر فورسز کے محاصرے میں ہے ۔ پدی زر کے مقام پر دھرنا جاری ہے اور دھرنے کے چاروں اطراف میں فورسز کی ایک بڑی چین بنائی گئی ہے ۔تمام سرکاری و نیم سرکاری دفاتر واملاک پر سخت سیکورٹی تعینات ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی سیکورٹی کے باوجود مظاہرین کہاں وومن پولیس اسٹیشن میں جاکر توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں؟
ہمیں ملنے والی ایک ذرائع نے دعویٰ کیا ہے وومن پولیس اسٹیشن میں توڑ پھوڑ ریاستی ایجنسیز و حکومت بلوچستان کا محض ایک ڈرامہ ہے تاکہ اس کی آڑ میں بی وائی سی کے خواتین قیادت و کارکنان کیخلاف جھوٹے و بے بنیادمقدمات بناکر انہیں پھنسایا جاسکے ۔
اس کی باقاعدہ ٹریلر بھی جاری کئی گئی جس میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ، سمی دین ،صبغت اللہ سمیت دیگر مردو خواتین کارکنان کو حراست میں لیاگیا تھا۔
ریاستی ایجنسیاں و بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت جاری عوامی تحریک کے سبھی ہمدردو ہمنوائوں جنہوں نے بلوچستان بھر میں سڑکوں پر دھرنے پر بیٹھے خواتین و بچوں اور بوڑھے و نوجوانوں کو کھانا کھلایا، پانی ،بستریں و چادریں اور ٹینٹ وشیلٹر فراہم کئے انہیں بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ۔
گذشتہ روز سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب گڈانی کے مقام پر دھرنے پر بیٹھے بلوچ خواتین و بچوں کو کھانا اور پانی دینے کے الزام میں وڈیرہ ستار ولد حسن نامی شخص کو لاپتہ کردیا ہے۔
وڈیرہ ستار ولد حسن کو حب گڈانی سے حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گڈانی کے قریب درجنوں مسافر پھنسے ہوئے ہیں جنھیں گوادر میں داخلے کی اجازت نا دینے کے بعد کراچی میں بھی پاکستانی فورسز اور پولیس نے داخلے سے روک دیا تھا جنہوں نے احتجاجاً گڈانی کے قریب دھرنا دیا ہے۔
گذشتہ روز گڈانی دھرنے کے مقام سے ویڈیو بیان میں دھرنے میں شریک شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ 27 جولائی کو کراچی سے گوادر جلسے میں شرکت کے لئے نکلے تھیں جنھیں پاکستانی فورسز نے تشدد اور انکے گاڑیوں کے ٹائر تباہ کرنے کے بعد گوادر میں داخلے سے روک دیا تھا۔
شرکاء کے مطابق مجبوراً جب وہ واپس کراچی اپنے گھروں کی طرف جانے کے لئے واپس ہوئے تو فرنٹیئر کور اور پولیس کے بھاری نفری نے انکے قافلے کو گڈانی کے قریب روک دیا اور انھیں حب اور کراچی میں بھی داخلے سے روک دیا ہے۔
اس دوران گوادر جلسے کے شرکاء کے پینے اور کھانے کی خوارک پر پابندی عائد کرتے ہوئے قریبی تمام ہوٹلوں اور دکانوں کو بھی فورا نے زبردستی بند کردیا ہے جبکہ آج انھیں کھانا فراہم کرنے والے گڈانی کے مقامی شخص کو بھی جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔
اسی طرح گوادر میں جاری راجی مچی اور بی وائی سی کے دھرنے کے حق میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے پرپاکستانی فوج نے ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی سے ایک نوجوان کو حراست میں لیکرجبری طورپرلاپتہ کردیا۔
لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت زاہد ولد بچل خان بگٹی کے نام سے ہوئی ہے جو کہ سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر بات کرتاہے۔
لیکن ان تمام ریاستی گھنائونے ہتھکنڈوں کے باوجود بلوچ عوامی تحریک منظم و توانا تر ہوکر جاری ہے اور ریاست اس کو کچلنے کیلئے مزید ہتھکنڈے تلاش کر رہی ہے ۔