کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے کوئٹہ بلوچستان میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اخبارات پر عائد سنسر شپ ختم کی جائے اور اشتہارات کو زبان بندی کے لیے بطور لیور استعمال نہ کیا جائے۔
سی پی این ای کے صدر ارشاد احمد عارف، سینئر نائب صدر انور ساجدی، نائب صدر عارف بلوچ اور سیکرٹری جنرل اعجاز الحق نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں طویل عرصہ تک پریس ایڈوائس کے بعد اب باقاعدہ سنسر شپ نافذ کر دی گئی ہے۔ خبروں کی اشاعت روکنے کے لئے محکمہ تعلقات عامہ کے ایسے افسران اخبارات کے دفاتر جا کر ناپسندیدہ خبریں کاپیوں سے اتروالیتے ہیں جو اشتہارات جاری کرنے کا بھی اختیار رکھتے ہیں۔ جس سے ضیا الحق کے مارشل لا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں کی خبروں کو کوئٹہ پریس کلب کی تالا بندی اور پریس ایڈوائسز کے بعد باقاعدہ محکمہ اطلاعات کے مجاز افسران کی دست اندازی پر مبنی کارروائیوں سے روکا جارہا ہے اور اخبارات کو اپوزیشن کی خبریں لگانے پر اشتہارات سے محروم کیا جارہا ہے جو نہ صرف آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر قدغن بلکہ آمرانہ ادوار کی قابل مذمت روش کا تسلسل بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پریس ریاست اور جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے لہٰذا حکومت جمہوری اداروں بالخصوص پریس کو آئین کے منافی سنسر شپ اور اشتہارات کی بندش جیسے آمرانہ اقدامات کا نشانہ بنانے سے گریز کرے۔
اطلاعات ہیں کہ حکومت بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ نے روزنامہ انتخاب کے اشتہارات بند کر دیے ہیں۔
روزنامہ انتخاب کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ چند روز قبل انتخاب کوئٹہ اور حب کے اشتہارات بند کر دئیے گئے تھے۔
رابطہ کرنے پر تعلقات عامہ کے ذمہ داروں نے بتایا کہبلوچستان حکومت کے ترجمان کے احکامات پر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ جب اس سلسلے میں ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اوپر سے ایسا حکم ملا ہے۔
ان سے کہا گیا کہ آپ کے اوپر وزیراعلیٰ ہیں کیا انہوں نے کوئی حکم دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ حکم ان سے بھی اوپر کے لوگوں نے جاری کیا ہے تاہم چند دن بعد اشتہارات میں کمی کے ساتھ ان کا اجرا شروع ہوگیا۔
اسی دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کی ۔
محکمہ تعلقات عامہ کے افسران نے اخبارات پر دباؤ ڈالا کہ یہ خبر شائع نہ کی جائے۔رات گئے مذکورہ افسران سنسر افسران بن کر چیدہ چیدہ اخبارات کے دفاتر میں گئے اور خبر کو اخبارات کی تیار کاپیوں سے اتروالیا۔
جب انتخاب نے یہ خبر شائع کر دی تو غیر اعلانیہ طور پر بتایا گیا کہ انتخاب کے اشتہارات مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ محکمہ تعلقات عامہ کے اس غیر آئینی بنیادی حقوق سے متصادم اور آزادی صحافت پر قدغن کے بارے میں تمام متعلقہ تنظیموں کو آگاہ کر دیاگیا ہے کیونکہ محکمہ تعلقات عامہ اس وقت میرٹ کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر انصاف کا قتل عام کر رہا ہے اور سرکاری خزانہ کو بے رحمی کے ساتھ خرچ کررہا ہے۔ اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کے بارے میں بھی قانونی ماہرین سے مشاورت جاری ہے۔