لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3979دن مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان ایک غیر فطری ملک ہے اس میں انسان و انسانیت کی کوئی قدر نہیں اس بات میں کوئی شک نہیں آج بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر چلنی والی ڈیتھ اسکواڈ گرو بلوچوں کو قتل کررہے ہیں اور انہیں پاکستانی فوج نے بلوچستان میں مکمل آزادی دی ہوئی جو کرنا چاہتے ہیں کریں، آج بلوچستان میں نا لوگوں کے مال محفوظ ہیں ناہی جان ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی فوج کی چوکیاں اور کیمپ ان تمام چیزوں کے باوجود پورے بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے دیدی دلیری کے ساتھ گھوم کر لوگ کو لوٹ کر انہیں قتل کرتے ہیں یہ تمام چیزیں اب سورج کی روشنی کی عیاں ہوچکی ہے مذکورہ گرؤں کس کی پشت پنائی میں کام کر رہے ہیں۔
ماما قدیر نے مزید نے کہا پاکستانی فوج اور اس کے قائم کردہ گرو اور خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے بلوچستان میں لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اب لوگ ان تمام چیزوں سے بیزار ہوکر گھروں سے نکل رہے ہیں گزشتہ دنوں تربت کے علاقے ڈھنک میں پیش آنے والا واقعہ جہاں بلوچ بیٹی شہید اور اسکی کمسن بیٹی برمش زخمی ہوئی تھی اس طرح کے واقعات روزانہ بلوچستان میں پیش آرہے ہیں مگر اس واقعے میں بلوچ بیٹی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی فوج اس کے زرخرید غنڈوں کا مکرو چہرہ عیاں کیا ہے اب اس سچائی سے پوری دنیا واقف ہے بلوچستان میں بدامنی کے ذمہ دار کون ہیں اس وقت احتجاجی مظاہروں اور جلسوں نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا مظاہریں کا صرف اور صرف ایک ہی مطالبہ ہے سانحہ ڈھنک کے ملزمان کو سزائیں دی جائے اور پورے بلوچستان میں فوری طور پر ڈیتھ اسکواڈ کے تمام گروں کو ختم کیا جائے مگر ان تمام چیزوں کے باوجود پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اپنی شیطانی چالوں سے باز نہیں آرہے ہیں ان مظاہروں اورجلوسوں کو کاؤنٹر اور معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سانحہ ڈھنک کے مرکزی ملزم سمیر سبزل کو گرفتار کیا گیا مگر حقیقت میں ابھی تک تربت پولیس نے سمیر سبزل کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
ماما کا کہنا تھا پاکستانی فوج اور حکمرانوں نے بلوچوں پہ ایٹم بمب برسانے کے علاوہ تمام ظلم آزمائے ہوئے ہیں بلوچوں کو اغوائکرنا پھر انہیں شہید کرنا یا لوگوں کے گھروں کو جلانا اور پورے بلوچستان کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے لوگوں کا جینا حرام کرنا شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت سانحہ ڈھنک کے خلاف چلنے والی احتجاج اور مظاہروں کو روایتی پروگرام سے ہٹ کر مکمل ایک حکمت عملی کے تحت ایک تحریکی شکل دے کر آگے لے جانا ہوگا۔