خواتین پر ریاستی تشدد کیخلاف آزادی پسند بلوچ رہنمائوں کا ردعمل

0
57

بلوچ آزادی پسند رہنما ئوں نے کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کیخلاف پر امن احتجاجی مظاہرین پر ریاستی تشدد کو آزادی اظہار اور اجتماع کی آزادی کے خلاف ورزی قرار دیاہے۔

بلوچ نیشنل مومنٹ بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پراپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی بربریت کے خلاف سب کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ، متعدد خواتین کے زخمی ہونا انتہائی قابل مذمت ہے۔ پاکستان بلوچ نسل کشی کا ارتکاب کرنے کے درپے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ظہیر بلوچ کے اغوا کے بعد پاکستانی فورسز نے اب احتجاج کو بھی دبانے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آزادی اظہار اور اجتماع کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے بلوچ نسل کشی کے کسی بھی قانون کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسی طرح بلوچ نیشنل مومنٹ کے سابقہ چیئرمین خلیل بلوچ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ بلوچ مظاہرین کی پر امن احتجاجی ریلی پر پاکستانی فورسز نے حملہ کرکے ایک بار پھر ہمیں یقین دہانی کرائی کہ “غلام کو چیخنے کی بھی اجازت نہیں” اور” غلام بس درد سہتارہے اوراسے اپنی مقدرسمجھے” لیکن سخت جان بلوچ اب ٹھان چکے ہیں کہ اگرچیخنا،چلانا، فریاد کرنا ہماری مقدر بنائی جا چکی ہے تو اس مقدر کواپنی عزم اوراستقلال سے تبدیل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے اور ساتھ ہی منزل کی جانب بھی بڑھتے ہی رہیں گے۔

انھوں نے کہا ہے کہ آج بلوچ خواتین پر حملہ نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ ایک وحشیانہ اقدام بھی ہے جو مظاہرین کی پرامن جدوجہد کو دبانے کی کوشش ہے۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے مظاہرین بلکہ متاثرین پر ظلم و ستم کی یہ داستان اپنی انتقام کا بیج خود ہی بودیتا ہے،بلوچ ان بہیمانہ مظالم کا حساب آزادی کی صورت میں وصولے گا یہ ہمارا ایمان ہے۔

خلیل بلوچ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کا یہ سفاکیت نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ عالمی برادری کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کے مترادف ہے۔ بلوچ کے خلاف پاکستانی ریاست اور افواج کے ظلم وستم انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتے ہیں ۔

سابقہ چیئرمین نے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ خواتین کی عزم و ہمت کو لائقِ خراج تحسین ہے جنہوں نے بے پناہ مشکلات اور خطرات کے باوجود اپنی جدوجہدجاری رکھی ہے ۔ ہماری ماں، بہنوں کی جرات مندی اور مستقل مزاجی نہ صرف بلوچ بلکہ دنیابھر کے مظلوموں کو حق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کا حوصلہ اور عزم ثابت کرتا ہے کہ حق کی راہ میں کوئی بھی ظلم اور جبر ان کے حوصلے کو پست نہیں کر سکتا۔ یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری اس مسئلے کا نوٹس لے اور پاکستانی ریاست کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے۔

دوسری جانب بلوچ آزادی پسند گوریلا کمانڈر اختر ندیم بلوچ نے ایکس پراپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ شال کی گلیوں میں بربریت پوری طرح دکھائی دے رہی تھی لیکن بلوچ قوم کے بیٹے اور بیٹیاں اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ اس نسل نے گھروں پر چھاپے اور مسخ شدہ لاشیں دیکھی ہیں، پھر بھی ان کی آنکھوں میں مجھے امید نظر آتی ہے، خوف نہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ بلوچ نوجوان، مزاحمت کے ذریعے ریاستی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ بربریت صرف مزید نفرت کو جنم دے گی، اور یہ شدت ریاست کو کھا جائے گی۔

علاوہ ازیںبی این ایم رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے ایکس پر اپنے پوسٹ میں کہا کہ مقبوضہ بلوچستان کوئٹہ میں لاٹھی چارج، آنسو گیس کا استعمال اور درجنوں بلوچ خواتین اور نوجوانوں کو گرفتار کرنا جو جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی دہشت گردی اور استعماری حکمرانی کو بے نقاب کرنے کے لیے آزاد بلوچستان ہی واحد حل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here