بلوچستان کے ضلع آواران میں بی ایس ایف کی جانب سے 26 جون کو منعقد ”مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول“ کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہوا ہے۔
یہ پروگرام مختلف سیگمنٹس جس میں فینل ڈسکشن، اسپیچ، مشاعرہ، میوزیکل پروگرام پر مشتمل تھا، اس پروگرام میں ”مہرگڑھ کتاب کاروان کے نام پر بک اسٹال کا بھی انعقاد کیا گیا۔
پروگرام کا پہلا سیگمنٹ فینل ڈسکشن بہ عنوان “Importance of woman education in nation formation” تھا، جس میں موڈیریٹر بانک درشم بلوچ جبکہ فینلسٹ بانک اکیلہ بلوچ، بانک ستارہ بلوچ، نوربانک بلوچ اور حیر بانک بلوچ تھے۔ جنہوں نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے قوم کی ترقی اور خوشخالی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر ایک گھر میں ایک تعلیم یافتہ عورت موجود ہو تو گھر کے اندر سارے بچے تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں، اگر اسی طرح ہر بلوچ کے گھر میں تعلیم یافتہ عورت موجود ہو تو پورے قوم کے آنے والا نسل علم وشعور سے لیس ہوگا۔ جن اقوام کے نوجوان تعلیم یافتہ ہو کر علم وشعور سے لیس ہوں تو ان کو دنیا کا کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتا، عورتوں کی تعلیم اور سیاست پر انہوں نے کہا کہ اگر ہم لمہ وتن شہید بانک کریمہ کی زندگی اور قربانیوں پر نظر دوڑائیں تو وہ ایک عظیم کردار اور جہدکار تھی، آج اگر بلوچ خواتین تعلیم اور سیاست کے میدان میں آئے ہیں تو یہ انکی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں بھی تعلیم حاصل کرنی ہے اور سیاست میں بھی اپنی کردار ادا کرنی ہے۔
پروگرام کا دوسرا فینل ڈسکشن بہ عنوان “Educational Scenario of District Awaran”تھا، جسکا موڈیریٹر بی ایس ایف کی مرکزی انفارمیشن سیکریٹری ڈاکٹر لطیف لعل جبکہ فینلسٹ بی ایس ایف کے سابقہ مرکزی چیئرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ، شمیم نصرت صاحب اور آواران کے نامور لکھاری ارشد اقبال بلوچ تھے، جنہوں نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے آواران کی تعلیمی نظام پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آواران کا تعلیمی نظام تباہی کی جانب گامزن ہے، اگر ہم یہاں کے اسکول اور کالجز کے انفرا اسٹرکچر پر نظر دوڑائیں جو کہ جدید تعلیمی تقاضوں کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں، یہاں ایسے گاؤں اور دیہات ہیں جہاں اسکول اور کالجز کا نام و نشان ہی نہیں جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ اگر جن علاقوں میں کہیں اسکولز موجود ہیں تو وہاں کلاس رومز کی تعداد بہت کم ہیں۔ اسکولز میں طلباء کی پڑھائی اور امتحانات کی تیاری کیلئے لائبریریز نہیں ہے۔ اگر دنیا کے تعلیم اداروں پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں کے تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل لائبریریز بنائی گئی ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں پر ایک جھونپڑی بھی تعمیر نہیں کی ہے جس کے سائے کے نیچے بیٹھ کر طلباء اپنی درس و تدریسی عمل کو جاری کرسکیں۔ نوجوانوں کی صحت کیلئے ورزش اور کھیل و کود کی سرگرمیاں انتہائی مفید ہیں لیکن یہاں کے تعلیمی اداروں میں طلباء کیلئے کوئی فٹبال اور کرکٹ گراؤنڈ بھی تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ بعض ایسے اساتذہ ہیں جنہوں نے آج تک تعلیمی اداروں کو منہ تک نہیں دیکھا ہے، جنہیں سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی حاصل ہے،جو صرف ماہانہ تنخواہ وصول تو کر رہے ہیں لیکن نوجوانوں کی مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
پروگرام کا دوسرا سیگمنٹ بہ عنوان ”Suicide and its impact in Awaran Region“ تھا، اس موضوع پر بلوچ اسٹوڈنٹس کے سابقہ مرکزی چیئرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ اور آواران کے نوجوان جرنلسٹ اور لکھاری نصیر عبداللہ بلوچ نے تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موضوع پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم پر موت نے پہلے سے اپنا سینہ تھان لیا ہے جو وقت سے پہلے سینکڑوں نوجوانوں کی زندگیوں کو چین لیا گیا ہے، لیکن دوسری جانب خودکشی کی لہر دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے جو کہ نفسیاتی بیماریوں اور سماجی نا ناانصافیوں کی اسباب ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں میں ڈپریشن، او سی ڈی، اینگزائٹی، شیزوفرینیا اور دیگر اقسام شامل ہیں، جب کسی سماج میں لوگوں پر ظلم و جبر ہو گا ان کو بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو ان کو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اپسردگی اور پریشانیاں لوگوں کو زہنی بیماریوں کے شکار بنا دیں گے، بالآخر لوگ انتہائی اپسردگی کی وجہ سے مایوسی میں مبتلا ہو کر خودکشی کرتے ہیں۔ سماج میں ظلم و بربریت اور نا انصافیوں کی وجہ سے لوگ اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے بھی خودکشی کر رہے ہیں۔اسکے علاوہ معاشرے میں منشیات کا کاروبار سرعام ہو رہا ہے، جہاں ہر گاؤں میں منشیات دستیاب ہے، منشیات بھی زہنی بیماریوں کا جنم دے رہا ہے، جسکی وجہ سے لوگ خودکشی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کو زیادہ طور پر بلیک میل کیا جاتا ہے، Honey Potting کے زریعے لوگوں کو بلیک میل کر کے ان سے طرح طرح کے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جسکے نتیجے میں وہ مجبوری ہو کر اپنی عزت کو بچانے کیلئے خودکشی کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ نوجوانوں کو اکثر Covert Psycological Manipulation کے زریعے انکے جزبات اور احساسات کو پڑھکر انہی کے حساب سے انکو اپنے چنگل میں پسا کر بلیک میل کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ بھی اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے خودکشی کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر مارکنگ کے نام پر طالبات کو بھی بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر وہ نوجوان خودکشی کر رہے ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگار ہیں غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لیکن خودکشی کی روک تھام کیلئے ایسا کوئی طریقہ کار یا Psychiatric Clinic نہیں ہیں جہاں لوگوں کی نفسیاتی کونسلنگ کی جائے۔
پروگرام کا تیسرا حصہ مشاعرہ تھا، آدم حقانی اکیڈمی کے سربراہ کلیم قادر کی سربراہی میں آدم حقانی اکیڈمی کے نامور شاعروں نے اپنے اشعار کو پڑھ کر پروگرام کو لطف اندوز بنا دیا، اس مشاعرے میں دور سے آنے والے مہمان نبی بخش نبل نے بھی اشعار پڑھ کر دوستوں کی حوصلہ افزائی کی۔
پروگرام کا چوتھا حصہ میوزیکل پروگرام تھا، جس میں بالاچ بلوچ، ساکم بشیر، اویس نور اور آواران کے خوش الحان اور نامور گلوکار عید محمد عیدل آوارانی نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروگرام کو مزید لطف اندوز بنا دیا۔
بی ایس ایف کے دوستوں نے پروگرام میں ”مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول“ کے نام پر ایک کتاب میلے کا بھی انعقاد کیا جس میں مختلف موضوعات پر لکھے گئے کتابیں دستیاب تھیں، آواران کے طلباء اور طالبات نے علم دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف موضوعات کی کتابیں خریدیں۔
اس پروگرام میں آواران میں آنے والے مہمان اے سی مجیب الرحمان ساتکزئی، شمیم نصرت، خالد قمبرانی، بی ایس او کے مرکزی سنٹرل کمیٹی کے ممبر شفیق مہر، نبی بخش نبل، آواران پریس کلب کے جرنلسٹ، آدم حقانی اکیڈمی آواران کے ساتھی، بلوچ طلباء اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کی کافی تعداد نے شرکت کرکے بی ایس ایف کے دوستوں کی سیاسی اور علم و ادبی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے یہ امید ظاہر کی بی ایس ایف کے دوست ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی آواران جیسے پسماندہ علاقوں میں علم و ادبی سرگرمیوں کو برقرار رکھیں گے۔ اس حوالے سے ہم بی ایس ایف کے دوستوں کو ہر ممکن طور پر اپنی مدد و تعاون کو جاری رکھیں گے۔ پروگرام کے آخر میں بی ایس ایف کے چیئرمین جاوید بلوچ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔