کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کااحتجاجی کیمپ جاری

0
83

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5432 دن ہوگئے۔

بی ایس او(پجار) شال زون کے آرگنائزر و سینٹرل کمیٹی کے ممبر وسیم بلوچ سینٹرل کمیٹی کے ممبر انعام بلوچ بلوچستان یونیورسٹی کے یونٹ سیکٹری اکرم بلوچ ڈپٹی یونٹ سیکٹری شہزاد بلوچ اورماڈہ زونل آرگنائزر مہیم عطاء بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔

بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر نے کہا کہ سرسبز شاداب گیت گاتے سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان جس کے رعنائیوں میں ہر وقت کھونے کو جی کرتا ہے جس کے پہاڑ جب سفید چادر اوڑھتے ہیں توحن کی دیویاں بھی شرما جاتی ہیں۔لیکن ان سب خوبیوں کو ملکہ آج خون میں لت پت قتل و غارت اور ظلم و ستم کے ہچگور کے کھانے پر مجبور کیوں ہے آج اس وادی بہاران میں خزاں کو زبردستی دھیکیلنے اور حالات پیدا کرنے والے کون ہیں۔ بلوچستان اگرچہ روز اول سے ناانصافیوں اور محرومیوں کا گھڑ ہے۔لیکن حالات کی شدت میں اضافہ اس وقت دیکھتے ہیں آیا جو ہنوازجاری ہے جب ڈیرہ بگٹی کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چادر چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے ظلم جبر کا وہ بازار گرم کیا گیا۔جسے ہر آنکھ دیکھنے کی تاب ہی نہیں رکھتی یہی تسلسل تا حال جاری ہے۔السانی حقوق کے رکھوالے یا وہ ہمدرد نظر نہیں آتے جو السانیت اور انسانی حقوق کے دعویدار اور ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کی یقینا آپ کافی حد تک جان چکے ہون کے بلوچستان کے حالات کو اس دوراہے پر لاکھڑا کرنے میں کن لوگوں کا حصہ ہے جن کے گناہوں کے کاخمیاز پوری سرزمین بلوچستان اور اس کے باسی بھگتنے پر مجبور ہیں بلوچ خون آج سب سے سستا ہوچکا ہے ہٹ طرف خون ہی خون بہایا جارہا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان کے حالات اس حد تک لانے میں حکمران ملوث رہے ہیں۔بالخصوص سابق موجودہ حکومت کو کسی بھی طورپر بڑی الذمہ نہیں قرار نہیں دیا جاتا سکتا کیونکہ بلوچ خون بہانےپر آج اٹھتے بیھٹتے خود کو بلوچوں کا ہمدرد ظاہر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔مگر شاید ان کو پتہ نہیں کہ بلوچ کو اب دوست دشمن کی پہچان اچھی طرح ہوچکی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here