بلوچستان نسل کشی کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، عدلیہ و پارلیمنٹ شریک جرم ہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

0
24

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف متحرک آواز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ ہماری تحریک کو جان بوجھ کر پنجاب مخالف بنانے کی سازش کی گئی تاکہ ہماری آواز کو متنازعہ بناکر مظلوم لوگوں کی ہم سے ہمدردیاں دور کی جاسکیں، ہم نے ہمیشہ غلط کو غلط کہا، بلوچستان میں جبر، تشدد اور انسانی حقوق کی بدتر پامالیاں اگرچہ ایک ادارہ کررہا ہے لیکن اسے عدلیہ اور پارلیمنٹ کی حمایت رہی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاھور میں دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اور لاپتہ افراد کے موضوع پر معروف صحافی اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ غازی صلاح الدین کے ساتھ ڈسکشن میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس ڈسکشن میں یونائیٹڈ نیشن میں جبری گمشدگی کی کمیٹی کے چیئرمین Olivier De Frouville، سابقہ ایڈوجنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، سپریم کورٹ آف پاکستان کے سنیئر وکلا ایڈووکیٹ شبیر حسین، ایڈووکیٹ طاہر حسین اور انسانی حقوق کے ماہر قانون زگر شیر شامل تھے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کو ہراساں کیا جارہا ہے، ڈیتھ اسکواڈ کے زریعے ایسے فیملی کو دھمکی دی جاتی ہیں یا ان کی عورتوں کو لاپتہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے گھروں میں سے مرد عسکری مزاحمت کا حصہ ہیں۔ بلوچ عورتیں جس کرب اور ازیت میں گزر رہی ہیں ان کا لاھور یا پاکستان کے کسی دوسرے حصہ میں بیٹھ کر تصور تک کرنا محال ہے۔ ہماری ماؤں کے بچے ایسی حالت میں لوٹائے جاتے جب تشدد کے سبب ان کے چہرے اس قدر مسخ ہوچکے ہوں کہ انہیں جننے والی مائیں مشکل سے پہچان سکتی ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم سے کالونیل دور تک عورتوں کا استحصال کیا گیا اور آج بھی بلوچستان میں عورتوں کو جبری گمشدگیوں کے سبب اجتماعی ازیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بلوچستان دو دہائیوں سے جبر کی المناکیوں کا شکار ہے اس کے سب سے زیادہ وکٹم بلوچ عورتیں ہیں، دہائیوں سے اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کے انتظار میں بلوچ عورتوں کو زہنی اور جسمانی طور پر اجتماعی ازیت کا نشانہ بنایا گیا، انسانی حقوق کے اداروں کی مسلسل خاموشی سے بلوچستان جبر و ازیت کا سلسلہ روز المناک ہوتا جارہا ہے۔ تشدد، جبر، ازیت اور لاپتہ افراد کی صورت میں آج کا بلوچستان نسل کشی کے بدترین دور سے گزر رہی ہے اس میں عدلیہ اور پارلیمنٹ خاموش رہ کر شریک جرم بنے ہوئے ہیں، دہائیوں کے زہنی و جسمانی تشدد سے ہمارے لوگ نارمل زندگی جینا بھول گئے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر ٹیچرز، صحافیوں اور روشن دماغ کو نشانہ بنایا گیا سونا اگلنے والی ہماری زمین کا ہر حصہ لاشیں اگل رہی ہے جب ہم نے اس کے خلاف پرامن تحریک شروع کی تو اسے پنجاب مخالف تحریک ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی گئی تاکہ مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کے جزبات ختم کیے جائیں اور بلوچوں کو اکیلا بناکر ان کا استحصال آسان بنایا جائے، حالانکہ ہم نے ہمیشہ غلط کو غلط کہا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی قہر بن کر نازل ہوا اس سے ہمارا پورا سماج متاثر ہے، ہماری عورتوں کو ڈیتھ اسکواڈز کے زریعے ہراس کیا جارہا ہے، عسکری مزاحمت میں شامل گھرانے کی عورتوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ کمسن بچیوں کو ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں سے زبردستی شادی پر مجبور کیا گیا جس سے خودکشی کے کیسز بھی ریکارڈ ہوئے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسلے کو اس وقت تک حل کی جانب لے جانا ممکن نہیں جب تک جبری گمشدگی کو جرم قرار نہیں دیا جاتا۔

(نوٹ: یہ اسداللہ بلوچ کی فائل کردہ رپورٹ ہو جو “رسانکدر بلوچستان” سے لیا گیا ہے ۔ ادارہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here