فیوچک نے کیا خوب کہاتھا ”آپ میں سے جو لوگ تاریخ کے اس دور میں اپنے کے بعد بھی زندہ رہیں،میں ان سے ایک بات کہوں گا کہ ان لوگوں کو کبھی مت بھولیں جو اس جدوجہد میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان ہیروز کو یاد رکھیں جنہوں نے اپنے اور آپ کی روشن مستقبل کیلئے اپنے جان کی بازی لگادی ہو۔”
جبکہ الگزنڈرڈوما نے کہاتھا کہ نظریہ خیال ہوتے ہیں، خیالات پر اس طرح قابو نہیں پایاجاسکتاہے، وہ نا محسوس طورپر پھیلتے ہیں، نفوذ کرجاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں۔اور وہ روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونماپاتے ہیں۔ جتنا تم ان کی شاخیں کاٹ ڈالوگےاتناہی ان کی زمیں دوز جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔
بلوچ قوم کی تاریخ ایسے لازول قربانیون سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے قوم کے ان گنت ہونہار سپوتوں نے اس گلزمین کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں ہیں اوریہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے، کئی سپوت دشمن کی سلاخوں کے پیچھے تاریک زندانوں کی عمیق گڑھوں میں اپنے قوم کا درد محسوس کرنے کی وجہ سے پابند سلاسل ہوکر تاریخ رقم کررہے ہیں، سینکڑوں کامریڈ ان زندانوں کی بے خبری میں امر ہوگئے، لاتعداد دوستوں کی مسخ شدھ لاشیں گلی کوچوں، اجتماعی قبروں سے ملیں اور کئی سرمچار محاذ پر دشمن کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ،یہ تمام قربانیاں ہماری تاریخی ورثہ کا حصہ ہیں۔ اگر ہم ان جہدکاروں کی فلسفہ آزادی پر عمل کریں تو ہماری مستقل مزاجی اور استقلال میں مزید شجاعت و استقامت پیدا ہوگی، یہ الفاظ آپ نے( بی ایس او آزاد) کے ایک پروگرام میں کہے تھے جو آج تاریخ کے اوراق کا حصہ بن گئے ہیں۔
میں آج بلوچ قوم کے ہیروز میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں کچھ لکھنے کے جسارت کررہاہوں جس کی مستقبل مزاجی ہمت اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں’ اور آپ کی جہدوجہد آزادی کے فلسفہ کو بیان کرنا راقم ناچیز کی بس کی بات نہیں بس دو الفاظ لکھنا چاہ رہاہوں۔ تاکہ آٹھویں برسی کے موقع پر آپ کو خراج عقیدت پیش کرسکوں’ ہمارے اس عظیم کامریڈ کا نام شاھنواز ہے جسے ہم (میراث) کے نام سے بھی پکارتےتھے اور وہ حقیقی معنون میں بلوچ قوم کا ایک میراث تھا اور یہ نام اسے کامریڈ رضا جہانگیر نے دیاتھا۔
کامریڈ 1990کو ضلع پنجگور کے تحصیل گچک میں پیدا ہوئے اور ابتدائی و مڈل تک کی تعلیم گچک سے اور میٹرک پنجگور ماڈل سکول سے پاس کی اور اسی دوران ،بی ایس او آزاد کے دوستوں سے شنوائی ہوئی اور آپ غالباً 2010میں بی ایس او آزاد میں شامل ہوئے اور تا وقت شہادت Bso azad سے وابستہ تھے۔ کھٹن حالات میں دوستوں کی شہادت گرفتاریاں، گھروں پر حملے دشمن کی دھمکیاں یہ تمام رکاوٹیں کامریڈ کی ہمت شکنی میں ناکام ہوئے اور آپ فکری حوالے سے مزید چست و توانا ہوئے اور جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔’ 2012 کو کامریڈ شاہنواز کے کمرے پر ایف سی کے ریڈ کے بعد اس نے کالج کے آخری پیپر بھی چھوڑ دیے لیکن اپنے مقصد کے حصول کو نہیں۔
وہ کہا کرتے تھے کہ تعلیم غیرروایتی طریقے میں کتابوں سے حاصل کیا جاسکتاہے اور کافی مطالعہ کی وجہ سے وہ دوسرے تحریکوں، انقلابی شخصیات، ہسٹری اور فلسفے کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ ہمیشہ بات کے دوران دلائل سے بات کو منوانے کی صلاحیت بھی کامریڈ کے اندر موجود تھا وہ جس کامریڈ سے ملتے اسے اپنے سحرمیں لےلیتے اور اس کے ساتھ گہری دوستی قائم کرکے جڑے رہتے۔
بہرکیف وہ بی ایس او آزاد کے اسیر چیئرمین زاھد بلوچ سے کافی متاثرتھے ۔ زاھد کے لاپتہ ہونے کے بعد اس نے کہاتھا کہ ہمارا دشمن سیاسی جدوجہد اور کتابوں سے خوفزدہ ہے لیکن ہم اپنے مستقل مزاجی سے یہ ثابت کرینگے کہ ہم اپنے فکر و فلسفہ سے پیچھے نہیں ہٹیںگے چاہے اس کیلئے دشمن ہمیں مارے یا لاپتہ کردے ، ہمیں اپنے آنے والے کل کواپنے آج پر فوقیت دینی ہوگی ‘ اور آپ اس بات پر قائم بھی رہے۔ آپ کی شادی 20 اپریل 2015 کو ضلع آواران کے تحصیل مشکے وادی گورجک میں ہوئی ۔عین دوسری رات21 اپریل 2015 کو دشمن کے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی قریباً رات کے دو بجے گھر پر دشمن نے حملہ کرکے کامریڈ کو ہاتھوں میں لگے سرخ مہندی کے ساتھ اٹھاکر دیگردوستوں اعجاز بلوچ ‘ آفتاب بلوچ اور باسط بلوچ کے ساتھ اپنے کیمپ لےگئے۔ پورے دن فیملی گجر آرمی کیمپ کے احاطے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ دیں لیکن جابر اور سفاک دشمن نے کامریڈ کو دیگر تین دوستوں کے ساتھ شہید کرکے جھوٹ کا ڈھو نگ رچایاکہ یہ جھڑپ میں مارے گئے ہیں، اسے ہاتھوں میں لگے سرخ مہندی اور جسم سے مہکتے سرخ خون کی خوشبو کے ساتھ 22 اپریل 2015 کو ان کے آبائی گائوں گچک میں سپرد گلزمیں کردیا گیا۔ گوکہ دشمن نے جسمانی طورپر آپ کو ساتھیوں سمیت ہم سے جدا کیا لیکن ان کی نظریہ فلسفہ آزادی جدوجہد کی صورت میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔
٭٭٭