کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کا احتجاجی کیمپ جاری

0
109

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5377 دن ہوگئے۔

پسنی سے سیاسی اور سماجی کارکنان سلمان علی بلوچ، سعید سلیمان بلوچ ،یاسر بلوچ ،راشد بلوچ، ریحان بلوچ اور گارڈن کراچی سے میر حمل بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ لفظ بلوچستان ہونٹوں پہ آتے ہی جذبات احساسات تصورات خیالات ایک جنگی میدان کا منظر لیکر آتی ہیں جہاں ہر طرف آگ کے شعلوں میں انسان جلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں بندوق بارود توپ کی گرجدار آوازیں بلوچوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہے ان آہوں اور سسکیوں میں درد کے ساتھ ساتھ عزم اور پختہ جدوجہد کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے بلوچوں کے بکھرتے ہوئے لاشوں میں ماں کی ممتا بہن کی آنچل بلوچ کے جذبات خواہشات ارمان اور خواب بھی ریزہ ریزہ دکھائی دیتے ہیں جہاں امن کی علامت فاختہ بھی بلوچوں کے دکھ اور درد میں بارود کی برسات کو دیکھ کر خون کی آنسوؤں بہاتی ہوہی نظر آتی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ میں ایک جنگ چل رہی ہے اور جنگ ہی کی وجہ سے شہدا بلوچ کے لہو نے دھرتی کو سرمی کر رکھا ہے یہ جنگ امن خو خوشحالی انسانی برابری اور بلوچ کی تہذیب ثقافت اور بقا کا جنگ زدہ بلوچستان میں میڈیا کو حالات کے بارے میں صیح رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور لوگوں کو اجاگر یہ پابندی ہے مگر مخصوص مراعات یافتہ میڈیا صحافیوں کو ریاست کے مرتکب کردہ پالیسی کے مطابق گمراہ کن رپورٹیں شاہع کر کے مراعات سے نوازنا روز کا معمول ہے بلوچستان میں انسانی ضمیر قلم اور الفاظ کے حرمت سکوں کے عوض بیچنے کا کاروبار روز

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here