حماس کے ساتھ ملی بھگت کا اسرائیلی الزام غلط ہے، سربراہ عالمی ادارہ صحت

0
111

جمعے کے روز عالمی ادارہ صحت نے اسرائیل کے اس دعویٰ کی تردید کی کہ ادارے نے غزہ میں اسپتالوں کے فوجی استعمال کے بارے میں اسرائیل کے شواہد کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اس کی حماس کے ساتھ ملی بھگت تھی۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس گیبریئسس نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے الزامات وہاں پر موجود ان کے عملے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

ٹیڈروس جمعرات کو اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کے بورڈ کے اجلاس میں اقوم متحدہ کے لیے اسرائیلی سفیر میروو ایلن شہر کے دعوؤں کا جواب دے رہے تھے۔

اقوم متحدہ کے لیے اسرائیلی نمائندہ، سفیر میروو ایلن شہر نے دعویٰ کہا تھا کہ کہ حماس، غزہ کے اسپتالوں میں سرایت کر رہی ہے اور فلسطینی علاقے میں انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

ایلون شہر نے جمعرات کے روز کہا کہ غزہ میں اسرائیلی افواج نے جس اسپتال کی بھی تلاشی لی، اس کے حماس کی جانب سے استعمال کے شواہد ملے۔

بقول ان کے، یہ ناقابل تردید حقائق ہیں جن کو WHO نے بار بار نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا۔ “یہ نا اہلی نہیں، یہ ملی بھگت ہے۔ ادارہ صحت کے علم میں تھا کہ یرغمالوں کو اسپتالوں رکھا گیا ہے اور دہشت گردوں نے وہاں سے کارروائیاں کیں۔

ادارہ صحت نے، ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسرائیل کے اس الزام کی تردید کی کہ WHO کی حماس کے ساتھ ملی بھگت ہے۔ اور غزہ میں یرغمالی بنائے جانے والے افراد کے مصائب کی طرف سے اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

ٹیڈروس نے ایکس پر کہا کہ اس قسم کے جھوٹے دعویٰ نقصان دہ ہیں اور ہمارے عملے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں جو کمزور افراد کی خدمت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی حیثیت سے WHO غیر جانبدار ہے اور تمام لوگوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں ایک نیوز کانفرنس میں ٹیڈروس نے کہا تھا کہ ہیلتھ کیر کا ہمیشہ تحفظ کیا جانا چاہئیے۔ اس پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے فوجی بنایا جا سکتا ہے۔

جمعرات کے روز جب ٹیڈروس بورڈ سے خطاب کر رہے تھے توان کی آواز بھرا گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ غزہ کی پٹی میں ہلاک ہونے والوں میں سے 70 فیصد عورتیں اور بچے تھے۔ جنگ بندی کے لیے جو بہت پہلے ہو جانی چاہئیے تھی ایک بڑا محرک بننا چاہئیے۔

خود کو پرسکون بنانے کے لیے توقف کے بعد اپنی گفتگو دوبارہ شروع کرتے ہوئیے انہوں کہا کہ اگر ہم مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو یہ ہمیشہ ممکن ہے۔ اس کے لیے صرف خواہش کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here