صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعلقہ اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ویکسین کی تیزی سے تیاری پر خصوصی توجہ دیں۔ جمعے کے روز وائٹ ہاﺅس میں ‘آپریشن وارپ اسپیڈ’ کا اعلان کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ سال کے اواخر تک ویکسین آ جانی چاہیے۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”ویکسین آئے یا نہ آئے ملک کو بہرحال دوبارہ کھول دیا جائے گا”۔
ان کی انتظامیہ نے اس ہفتے اس بات کو یقینی بنانے کے منصوبے بھی تیار کرنے کے اقدامات کئے ہیں کہ امریکہ میں اہم نوعیت کے طبی ساز و سامان کی کمی نہ ہونے پائے۔
صدر ٹرمپ کا ارادہ ہے کہ جنوری 2021ءتک کروڑوں کی تعداد میں کرونا وائرس کی ویکسین تیار ہو جائے۔
پبلک ہیلتھ کے بیشتر ماہرین سمجھتے ہیں کہ شاید ویکسین کی تیاری کے لئے دی گئی وقت کی حد میں یہ ممکن نہ ہو۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے جو زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں، جیسا کہ ہیلتھ کیئر ورکرز یا ضعیف العمر افراد؛ ان کے لئے ہنگامی طور ہر استعمال کے واسطے یہ ویکسین تیار کر لی جائے۔
پالیسی سینٹر کے چیف میڈیکل ایڈوائزر، آنند پاریکھ کہتے ہیں کہ ہر کام کو انتہائی مہارت سے کرنا ہو گا۔
بقول ان کے، ”جہاں تک عام پبلک کا تعلق ہے ان کے استعمال کے لئے ویکسین کی تیاری کے واسطے، میرے خیال میں اگر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے، تو 18 مہینے کی مدت درکار ہو گی”۔
ایسے میں جب نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، ٹرمپ ملک کو کھولنا اور معیشت کا پہیہ دوبارہ چالو کرنا چاہتے ہیں۔
صدر نے کہا ہے کہ ”ویکسین ہو یا نہ ہو ہم واپس آ رہے ہیں۔ ہم ملک کھولنے کا عمل شروع کر رہے ہیں۔ اور بہت سی صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ویکسین بھی نہیں ہوتی۔ اور کوئی وائرس یا فل±و آتا جاتا رہتا ہے۔ اور آپ اس سے نبردآزما ہو کر آگے نکل جاتے ہیں”۔
ٹرمپ نے احتجاج کرنے والوں کی حمایت کا اظہار کیا جو چاہتے ہیں کہ انفرادی طور پر ریاستیں گھر کے اندر رہنے کے حکم کو واپس لیں اور ان کی معیشتوں کو کھول دیں، حالانکہ ان میں سے بہت سی ریاستیں اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، جو خود ان کی حکومت کے مقرر کردہ اور انہیں کھولنے کے لئے لازمی ہیں۔
ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں ریڈ اسٹیٹس کہا جاتا ہے، جنہوں نے دو ہزار سولہ میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جن ریاستوں کو قبل از وقت کھول دیا گیا اور وہاں کرونا وائرس کے کیسوں میں اضافہ ہوا، تو صدر ٹرمپ کو اس کا سیاسی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔