ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل سے وابستہ ایک عہدیدار نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی بلوچستان (پاکستان کے زیر قبضہ) میں تنظیمی ڈھانچے کی موجودگی کے تمام ایرانی حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں۔
اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جیش العدل کے عہدیدار نے مزید کہاکہ ایرانی حکومت ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے حقائق مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہے۔ جیش العدل سے متعلق ایرانی حکومت نے جوحالیہ موقف اختیار کیا ہے۔ ہم اس کی تردید کرتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاسداران انقلاب ہمیں مشرقی بلوچستان میں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی سرزمین پر ہماری موجودگی تسلیم کرے۔ جیش العدل ایران میں مظلوم بلوچ عوام کے حقوق کے لیے سرگرم ہے اور اس تنظیم کے کسی فرد کا پاکستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔
شدت پسند تنظیم کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ منگل کی شب ایرانی فورسز نے مغربی بلوچستان (ایرانی زیرقبضہ )کے بعض حصوں میں جو کارروائی کی ہے اس سے تنظیم کے کسی رکن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاسداران انقلاب نے تنظیمی ارکان کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی، سیستان میں خاش اور ملحقہ علاقوں میں شروع کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران جو میزائل ہدف پر فائر کیے گئے تھے وہ غلط رخ پر مشرقی بلوچستان میں جا گرے جس کی وجہ سے وہاں ہماری اطلاعات کے مطابق مقامی آبادی کو نقصان پہنچا۔
جیش العدل نے گزشتہ روز زاہدان کے قریب پاسداران انقلاب کے مقامی ڈپٹی کمانڈر کرنل حسین علی جاویدانفر کو دو محافظوں سمیت ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
واضع رہے کہ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں بھی پاکستان کی اس موقف کی تردید کر رہے ہیں کہ مغربی بلوچستان میں ان کے ٹھکانے موجود ہیں۔